عدلیہ

مقام فیصلہ اور قضاوت میں انسانی کرامت کی رعایت

امام علی (ع) نے جج کے پاس مراجعہ کرنے والوں کے حقوق کو اہمیت دی ہے

انسان کی شخصیت اور اس کی عظمت و بزرگی کی رعایت کا سب سے اہم نمونہ اور جلوہ محاکمہ، بازپرس اور فیصلہ کے وقت ظاہر ہوتا هے۔ فطری ہے کہ طرفین میں سے کسی ایک فریق کی جانب سے خطا، ناشائستہ عمل اور غلط کام کا زیادہ احتمال ہے؛ کیونکہ قاضی اور جج کے پاس ایسے ہی موقع پر جایا جاتا ہے۔ بنابریں رجوع کرنے والوں کی نسبت سختی کرنا اور ان سے بے توجہی برتنا بعید نہیں ہے۔

ایسے موراد میں ملزم شخص کی شخصیت کو حقیر کرنا ایک عام سی بات ہے بنابریں ان افراد کی شخصیت کا پاس و لحاظ رکھنے کی تاکید ایسے مقام اور مرحلہ میں زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔

امام علی (ع) نے جج کے پاس مراجعہ کرنے والوں کے حقوق کو اہمیت دی ہے اور عدلیہ کے کاغذات اور ریکارڈ کی ادب و احترام کے ساتھ تحقیق و جستجو کرنے کو بیان کیا ہے۔

آپ (ع) نے محمد بن ابی بکر کو خطاب کرکے خط لکھا اور اس میں انسانی مقام کی رعایت اور مقام فیصلہ اور قضاوت میں حقوق کے پاس و لحاظ کی وضاحت فرماتی ہے: جب بھی لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو ان کے سامنے فروتنی اور انکساری اور نرم رفتار اختیار کرو اور خندہ پیشانی سے ملو اور گوشہ چشم سے نگاہ کرنے یا خیرہ ہونے سے بچو اور برابر کا رویہ اپناؤ تا کہ بڑے لوگ تمہاری عدالت سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے اور وہ ظلم پر ظلم کرتے ہیں اور اسی طرح بڑوں کے مقابلے میں کمزور اپنے حق میں فیصلہ ہونے سے مایوس نہ ہوں۔

ایک خبر میں مذکور ہے:

ایک شخص نے امام علی (ع) کی عمر سے شکایت کی۔ امام فیصلہ کی بزم میں آئے تو دوسرے خلیفہ نے آپ کو آپ کی کنیت سے یاد کیا اور احترام کے ساتھ پیش آئے اور کہا: ابوالحسن! اٹھیئے اور اپنے شاکی کے پہلو میں بیٹھے۔ یہ سنتے ہی امام کے چہرہ کا رنگ بدل گیا اور اس درجہ کہ جلسہ تمام ہونے کے بعد بھی آپ کے روئے مبارک پر اس کا اثر تھا۔ خلیفہ نے آپ سے پوچھا: اے ابوالحسن! آپ کو دگرگوں کیوں دیکھ رہا ہوں؟ کیا جو کچھ ہوا ہے آپ اس سے ناراض ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اس نے پوچھا: کیوں؟ امام علی (ع) نے فرمایا: تم نے فریق مخالف کے سامنے مجھے میری کنیت سے پکارا (جو معمول سے زیادہ محترم انداز ہے) تم نے یہ کیوں نہیں کہا: اے علی! اٹھو اور اپنے فریق مخالف کے پہلو میں بیٹھو۔

امام علی (ع) کی سیرت اس طرح ہے کہ ایسے مقام پر اپنے حد درجہ احترام کے بھی قائل نہیں ہیں جہاں دوروں کی توہیں اور تحقیر ہو۔ امام خمینی (رح) نے حضرت علی(ع) کے اس فرمان پر عمل کرنے میں اپنے 8/ مادہ کے فرمان، مقام عدالت میں بعض انسانی کرامت کے موارد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

کسی کو کسی مسلمان کی ہتک حرمت اور توہیں کرنے کا حق نہیں ہے اور نہ ہی وہ شرعی قوانی سے تجاوز کرنے کا حق رکھتا ہے. صرف اسلام کے بتائے ہوئے قانون کی روشنی میں نہی از منکر پر عمل کرے اور وہ گھر والوں کو مارنے پیٹنے، گرفتار کرنے یا اپنی طرف مائل کرنے کا حق نہیں رکھتا، حدود الہی سے آگے بڑھ جانا ظلم ہے اور تعزیر اور کبھی تقاص کا موجب ہے۔

حضرت علی (ع) کی نظر میں انسان کی انسانی کرامت اور شخصیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اخلاقی اصول و ضوابط کا پاس و لحاظ رکھے اور ناپسندیدہ امور سے دوری کرے، کیونکہ گناہ انسانی بلند وبالا روح کی غایت درجہ توہیں ہے کہ اس نے پست اور معمولی امور سے اپنے دل کو خوش کیا اور گندگیوں کے گرداب میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔

ای میل کریں