ملاحظہ کریں کہ امام خمینی (رح) کا انقلاب ایک ثقافتی اور دینی انقلاب تھا۔ امام (رح) کا نام یونیورسٹی، تعلیم یافتہ افراد اور ملک سے باہر خاص افراد کے درمیان ذکر ہوتا تھا۔ لوگ آپ کو ایک دینی اور ثقافتی سیاست داں اور اس شخص، جس نے ثقافتی، اجتماعی اور اس عالم یعنی ایران میں ایک انقلاب اور تبدیلی ایجاد کی ہے، کے عنوان سے نام لیا جاتا تھا۔
یہ بات میں نے تعلیم یافتہ اور یونیورسٹی کے افراد کے درمیان دیکھاہے۔ لیکن معاشرہ کے لوگ کس طرح کی قضاوت کرتے ہیں یہ ایک دوسری بحث ہے۔ بہر حال اس انقلاب کا رونما ہونا ایک فکر انقلاب ہے اور بیرون ملک فکری، اکیڈمیک اور ثقافتی انقلاب ایجاد کرتا ہے۔ اس وقت یورپ دنیا میں ایران کے انقلاب کو دینی بنیادی تبدیلی کا انقلاب کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف اسلامی انقلاب کے بعد کی یونیورسٹیوں و غیرہ اور دنیا کے گوشہ کنار میں اسلامی انجمنوں کے مراکز بنائے گئے۔ خود سے ابھر نے والی اس کی تنظیموں کا وجود امام خمینی (رح) کے خالص افکار و نظریات کا نتیجہ اور اس پاک و پاکیزہ روح کا صدقہ ہے جس نے ظلم وجود کے سامنے کبھی گھٹنا نہیں ٹیکا۔
اسے ہم نے یورپ کی دنیا میں مشاہدہ کیا ہے۔ یہاں تک ناچیز نے برازیل اور ارجینٹاینا میں بھی دیکھا ہے مثلا اگر لبنانی مسجد اور محفل بنا کرتے ہیں تو اکثر لبنانی جوان امام خمینی (رح) کے انقلابی افکار نظریات کے مقالد اور مروج ہوتے ہیں۔ ماہ مبارک رمضان میں مذہبی اور دینی جلسے فرق کرتے ہیں اور ایک دوسرا معنی اور مفہوم پیدا کرتی ہیں۔ ماہ محرم اور عاشورا کی عزاداری کا کچھ اور رنگ ہوتا ہے کیونکہ امام خمینی (رح) نے عزاداری کی مفہوم اور معنی بتا یا ہے اور خدا کی عبادت اور بندگی کا صحیح مفہوم پیش کیا ہے یعنی خالص اسلام میں عبادت اور بندگی کیا ہے، کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔
مثال کے طور پر میں نے ایٹلی میں دیکھا کہ روس کے آذربائیجان کے چند جوان عزاداری کررہے تھے کہ امام (رح) کے نام کے ساتھ امام حسین (ع) کا نام بھی لیتے تھے اور یہ بھی دیکھا ہے کہ جب ان میں سے کوئی مرثیہ پڑھتا تھا تو ان اشعار میں انقلابی رنگ و بو ہوتی تھی۔ یہ میرے لئے ایک روحانی کے عنوان سے بہت ہی دلچسپ تھا کہ کس نے ان جوانوں کے اندر یہ فکر اور امام (رح) سے اس درجہ لگاؤ پیدا کیا ہے، پس یہ سب امام (رح) کی ثقافت کا اثر تھا اور ہے۔
انگلینڈ اور یورپ میں ماہ مبارک رمضان میں ایک دوسرا ماحول ہوتا ہے۔ وہاں نماز جمعہ میں روزمرہ کے مسائل بیان کئے جاتے ہیں اور یہ معاشرہ کی بیداری میں کافی موثر کردار ادا کرتا ہے۔ مثلا الجزائر کا ایک اہلسنت طالب علم نماز جمعہ میں آتا اور روز قدس کے جمعہ کا انتظار کرتا تھا اور اس فکر میں رہتا کہ یہ لوگ نماز جمعہ کے دن قدس کی مناسبت سے کیا پروگرام بناتے ہیں، اور اس سلسلہ میں وہ مجھ سے سوال پوچھتا تھا۔
یہ اس بات کی عکاسی کررہا ہے کہ امام (رح) کے افکار و نظر بیرون ممالک کس درجہ موثر ہوئے ہیں۔ اگر طے ہوتا تھا کہ ایک شہر سے دوسرے شہر روز قدس کے موقع پر عظیم اجتماع ہونا ہے تو یہی اہلسنت اور شیعہ جوان پروگراموں میں شریک ہوتے اور بڑے ہی جوش و خروش اور والہانہ عقیدت کے ساتھ شرکت کرتے اور یہ شرکت امام خمینی (رح) کی ثقافت اور تفکر کے اثر انداز ہونے کی بہترین دلیل ہے۔