اگر انسان نے اپنے آپ کو سنوارنا نہ ہو، اپنا باطن پاک و صاف نہ کیا ہو، برے اوصاف کا ازالہ نہ ہوا ہو اور تقوی و پرہیزگاری کے عظیم دولت سے عاری ہو تو علم ان پر برے اثرات ڈالتا ہے؛ کیونکہ دنیا میں موجود سارے باطل اور غلط ادیان کے بانی علماء ہی رہے ہیں، اور اہل علم ہی نے بہت سارے فرقوں اور مذاہب کو جنم دیا ہے اور آج بھی قوم کو مختلف دھڑوں میں تقسیم کرنے والے بے شعور اور مفاد پرست علماء ہی ہیں کیونکہ علم تہذیب و تمدن اور اخلاق و کردار سے خالی علماء کے اندر داخل ہوگیا ہے اور ایسا عالم اور دانشمند بہت خطرناک بن جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں دارس کے علماء اور یونیورسٹیوں کے دانشوروں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ علم و دانش کا تقاضا تو یہ ہے کہانسان کو صحیح سمت کی جانب رہنمائی کرے، انسان کی سوچ کو بیہودہ اور لاطائل باتوں سے دور کرے انسانیت کی ترقی کی راہ پر گامزن کرے۔ خواہ علم دین ہو یا علم دنیا دونوں ہی کا تقاضا انسان کی عاقبت بخیر کرنا اور اسے سنوارنا ہے۔
اگر دینی علوم کے مراکز اور یونیورسٹیوں میں تربیت کا اہتمام نہ ہو، وہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا کوئی پروگرام نہ ہو تو وہ علوم کے گلے اپنار کی مثال قرآن کریم نے اس طرح دی ہے کہ توریت کے اٹھانے والوں کی مثال جو اس کے حامل نہ رہے ہیں اس گدھے کی طرح ہے جو کتابوں کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ ایرانی عظیم دانشور اور شاعر شیخ سعدی کے بقول: علم چندان کی بیشتر خوانی، چون علم نیست در تو نادانی۔ نہ محقق بود نہ دانشمند، چارپائے بر او کتابی چند۔
لہذا کتابیں پڑھنے سے کچھ نہیں ہوتا اگر کتاب کی روشنی سے فائدہ نہ اٹھائے، علم توحید، علم ادیان اور اخلاق کا مالک ہو لیکن صرف زبان کی حد تک اور اپنا تزکیہ نہ کیا ہو تو وہ معاشرہ کے لئے ناسور بن جاتا ہے اور اسے صحیح سمت ہدایت کرنے کے بجائے غلط سمت لے جاتا ہے اور اپنے افکار اور خیالات اور بیہودہ بیانات سے جہنم رسید کرتا اور گمراہی کا سبب بنتا ہے۔
اسی طرح دنیا کی ہر چیز اگر صحیح تعلیم اور تربیت سے عاری ہو تو وہ حکومت اور نظام بلکہ عالم انسانیت کے لئے ناسور بن جاتی ہے اور سب کو ہلاکت و تباہی سے دوچار کرتی ہے، لہذا ہر عاقل اور باشعور انسان علم سے زیادہ عمل کرنے کی کوشش کرے کیونکہ ائمہ اطہار (ع) اور دیگر اولیائے الہی نے علم سے زیادہ عمل کی تاکید کی ہے اور سلسلہ ہدایت کے رہنما اور ملت کے عظیم قائد امام خمینی (رح) نے بھی اپنے بیانات، تحریروں اور افکار سے لوگوں کو عمل کی عملی دعوت دی اور عمل ہی کو ہر چیز کی کامیابی کی اساس جانی ہے۔ بے دین اور بے عمل علماء اور دانشور کو قوم و معاشرے کے لئے ناسور اور خطرناک موجود جانا ہے۔