جب امام خمینی (رح) نجف میں تشریف لائے تو آپ (رح) نے ہر کام سے پہلے حوزہ علمیہ نجف پر غالب روایتی نظام کو ختم کرنے کی کوشش کی تا کہ خانقاہی جمود کو جو صدیوں سے وہاں پر غالب تھا توڑ کر نظام میں تبدیلی لا سکیں لہذا آپ نے اپنے پہلے خطاب میں علماء اور طلاب کو ان کے اصلی فرائض کی طرف متوجہ کیا اور انہیں رسولخدا (ص) اور دیگر تمام ائمہ (ع) کے اپنے اپنے زمانوں کے طاغوتوں کا مقابلہ کرنے کے گُر بتائے۔ آپ نے نجف اشرف میں رہتے ہوئے استعماری فکر (دین سیاست سے جدا ہے) کو عقل و منطق اور آیات و روایات کی روشنی میں غلط ثابت کیا۔ اس موضوع سے متعلق آپ کا ایک واقعہ کچھ اس طرح سے ہے:
ایک دفعہ امام (رح) نجف کے بڑےبڑے علماء کے ساتھ ایک محفل میں تشریف فرما تھے اور اس وقت اس محفل کا موضوع کمال اتاترک (ترکی میں دین کی جڑیں کاٹنے والا دین دشمن) تھا۔ تمام علماء کی جانب سے اس کی مذمت کی جارہی تھی اور اسے خائن اور استعمار کے ایجنٹ کے القاب سے نوازا جارہا تھا...
امام اس ساری مدت میں خاموش بیٹھے صرف سنتے رہے، آخر پر امام (رح) نے تمام علماء سے اجازت لینے کے بعد فرمایا: کمال اتاترک بھی اس نظریے کا حامی تھا جو آج اور اس وقت حوزہ علمیہ نجف میں علماء کے درمیان رائج هے کیونکہ آپ علماء بھی یہی کہتے ہیں کہ دین سیاست سے جدا ہے اور اس وقت کمال اتاترک بھی یہی کہتا تھا۔ امام (رح) کی اس بات نے تمام علماء کی گردنیں جھکادیں اور ایک مرتبہ ساری محفل پر سکوت طاری ہوگیا۔ لیکن جب انہوں نے اس نقطے پر توجہ کی تو کافی سوچ و بیچار کے بعد اس بات کا اعتراف کرنے لگے کہ امام (رح) نے بالکل صحیح فرمایا ہے کیونکہ اتاترک کہ جس کی اس قدر مذمت کررہے تھے اسے خائن اور دشمن اسلام کے القاب سے یاد کررہے تھے اس نے بھی تو وہی کام کیا تھا کہ جسے آج علماء عملا انجام دے رہے تھے۔ اتاترک کہا کرتا تھا: دین کو سیاست سے جدا ہونا چاہیئے اور علماء کو بالکل سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔ اور آج یہ علماء بھی اسی فکر پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا پرچار بھی کرتے ہیں۔
اس طرح امام خمینی (رح)، کچھ اوقات اپنے دروس میں یا دوسری اجتماعی مجالس و محافل میں اس طرح کے نکات بیان کیا کرتے تھے کہ جو استعماری فکر کا خاتمہ کرنے کے لئے بہت موثر ثابت ہوتے تھے اور اس طرح امام (رح) علماء کی روایتی اور خانقاہی فکر کو تبدیل کرنے اور انہیں اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوئے۔
*حجت الاسلام و المسلمین سید حمید روحانی