حضرت رسولخدا (ص) نے پہلی ربیع الاول کی شب مکہ سے مدینہ ہجرت کی اور رات کو غار ثور میں پوشیدہ ہوئے اور اسی شب حضرت امیر المومنین نے اپنے چچا زاد بھائی پر جان قربان کی اور آپ کے بستر پر سوئے ہیں اور آپ (ع) نے مشرکین کے قبیلوں کی تلواروں کی پرواہ نہیں کی ہے۔
آپ نے شب ہجرت بستر رسول پر سو کر اپنی فضیلت اور برادری کو پوری دنیا پر ثابت اور ظاہر کردیا اور دنیا و آخرت کی شرافت و بزرگی خرید لی۔ اور اسی شب کے کارنامہ اور حضرت علی (ع) کے ایثار و قربانی کے جذبہ کو دیکھ کر خداوند عالم نے آسمان پر ملائکہ پر فخر و مباہات کیا ہے اور اسی شب آیہ کریمہ "اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اللہ کی مرضی کے مقابلہ میں اپنے نفس کا سودا کرتے ہیں" نازل ہوئی ہے۔
جب خداوند سبحان نے ان دونوں پاک و پاکیزہ اور طیب و طاہر نفوس کو کافروں کے مکر سے محفوظ کیا ہے تو کہا گیا ہے کہ پهلی ربیع الاول کہ مدینہ کی پہلی تاریخ ہے کو رسولخدا (ص) اور حضرت امیر المومنین (ع) کی سلامتی کے شکرانہ کے طور پر روزہ رکھو اور اس دن ان دونوں عظیم ہستیوں کی زیارت پڑھنا مناسب ہے۔ اگر چہ علماء نے اس روز کے لئے زیارت کا ذکر نہیں کیا ہے اور اس دن کے لئے سید نے اقبال الاعمال میں دعائیں نقل کی ہیں۔
جب رسولخدا (ص) ہجرت کررہے تھی تو آپ نے مختلف امور کی انجام دہی کے لئے حضرت علی (ع) کو اپنا نائب مقرر فرمایا تھا اور اپنے بستر پر سلایا تھا جبکہ آپ کو معلوم تھا کہ کفار قریش اور ان کی حمایت کرنے والے قبائل گھر پر حملہ کرکے انہیں نیند میں ہی قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہاں پر تاریخ کے مطالعہ سے ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت علی (ع) کو رسول کے بستر پر سونے کے لئے کیوں انتخاب کیا۔ حضرت کا بستر رسول پر سوجانا جہاں ایک بہت بڑا امتحان ہے وہیں پر ایک بڑی فضیلت ہے اور اس کے پس منظر پر جتنا غور و خوض کیا جائے گا اتنا ہی فضائل کے باب کھلتے جائیں گے۔ اس سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ کی راہ میں، اس کے رسول کی جان بچانے کے لئے اپنی جان کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ جب کفار رسولخدا (ص) کو دین اسلام کی تبلیغ اور الہی پیغامات پہونچانے سے روک نہ سکے تو انہوں نے آپ کی زندگی ہی کا خاتمہ کرنے کی ٹھان لی۔
اور بہت سارے قبیلوں نے مل کر حملہ کرنے کی تیاری کررکھی تھی تا کہ کسی ایک قبیلہ سے قصاص اور انتقام نہ لیا جاسکے۔ لیکن خداوند عالم نے جبرئیل (ع) کے اس سازش سے باخبر کردیا۔ اور رسولخدا (ص) اپنے قابل اعتماد، راه خدا میں امتحانات سے گذرنے والے، اپنی جان کی پرواہ نہ کرنے اور خدا کی اطاعت و بندگی میں سراپا تسلیم شخص کا انتخاب کیا اور اپنے بستر پر سلا کر مکہ سے نکل گئے۔
دین اسلام، خدا کی بزرگی اور اطاعت کی راہ میں جان قربان کرنا علی (ع) کے لئے فخر و فضیلت کی بات تھی اور آپ کفار کی سازشوں کو چالوں کے بارے میں سن کر مسکرائے اور کہا تھا کہ کیا میرے سونے سے آپ کی جان بچ جائی گی؟ (اگر بچ جائے تو مجھے کوئی مضائقہ نہیں ہے) ۔ یہ ہے علی (ع) کا ایثار جس نے اپنا سب کو دین الہی کی تبلیغ و ترویج اور تحفظ میں لگادیا۔ یہ ہمارے لئے نمونہ عمل ہے کہ اگر دین الہی اور خدائی شخصیات یا مقدسات پر کبھی آنچ آئے تو ہم بھی اپنی جان بلکہ سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں اور خدا کے حکم کے سامنے سراپا تسلیم ہوں۔
حضرت امام خمینی (رح) نے بھی اپنے آبا و اجداد اور ائمہ معصومین (ع) کی سیرت کی ایک جھلک پیش کی اور خود کو راہ خدا، راہ انسانیت اور آدمیت میں قدم بڑھادیا اور ظلم و جور کے خلاف آواز بلند کی اور ستمگروں اور دنیا کے خونخواروں اور انسانیت سے کھلواڑ کرنے والوں کا مقابلہ کرتے رہے اور لوگوں کو یہی بتائے رہے کہ میرا مقابلہ ظلم و ستم سے ظالمانہ نظام اور ستم شاہی حکومت سے ہے نہ کسی فرد سے۔