اربعین یعنی چہلم، لیکن تاریخ انسانیت خصوصا عالم اسلام اور شیعوں کے درمیان سرکار سیدالشہداء حضرت امام حسین (ع) کی شہادت کے چالیسویں دن کو اربعین کہا جاتا ہے۔ امام حسین (ع) کی اربعین کا اعتبار شیعوں اور امام حسین کے وفاداروں کی تاریخی جنتری میں قدیم الایام سے معروف ہے۔ اس دن امام حسین (ع) کی شہادت کے غم میں سوگ اور عزاداری کی جاتی ہے۔ دعا اور عبادت، اعمال اور وظائف انجام دیتے جاتے۔
یہ اربعین کا دن ماہ صفر کی 20/ ویں تاریخ کو آتا ہے۔ آپ کے تمام چاہنے والے اور شیعیان حیدر کرار آپ کے غم میں آنسو بہائے، سر و سینہ پیٹتے، جلوس عزا نکالتے، نوحہ و ماتم کرتے اور اپنی عقیدت و محبت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اربعین ہی کے دن اہل حرم کا لٹا ہوا قافلہ شام سے کربلا آیا ہے۔ اس دن رسولخدا (ص) کے صحابی جابر بن عبدالله انصاری مدینہ سے کربلا پہونچے ہیں تا کہ امام حسین (ع) کی زیارت کریں۔ مردوں میں یہی وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے سرکار سید الشہداء (ع) کی قبر کی زیارت کی ہے۔ اربعین ہی کے دن امام حسین (ع) اہل حرم شام سے کربلا یا مدینہ واپس آئے ہیں۔ روایت ہے کہ کربلا کے اسراء شام سے عراق گئے اور واقعہ عاشورا کے 40/ دن بعد کربلا پہونچے اور وہاں جابر بن عبداللہ انصاری اور بعض بنی ہاشم سے ملاقات کی اور امام حسین (ع) کی زیارت کے بعد مدینہ واپس آئے۔ دینی روایات کی روشنی میں جابر بن عبداللہ سن 61 ق میں امام حسین کے پہلے چہلم پر اپنے غلام عطیہ کے ہمراہ کربلا پہونچے اور امام حسین (ع) کی قبر کی زیارت کی۔
حضرت امام حسن عسکری (ع) کی ایک حدیث میں مومن کی پانچ نشانیاں بتائی گئی ہیں کہ ان میں سے ایک اربعین کے دن حضرت امام حسین (ع) کی زیارت پڑھنا اور کرنا ہے۔ اسی دن اہلبیت (ع) کے اسراء کے ہمراہ شام سے امام حسین (ع) کا سر مبارک آیا اور جسم کے ساتھ دفن کیا گیا ہے۔
اربعین کی زیارت کی اتنی زیادہ تاکید باعث ہوئی ہے کہ دنیا کے گوشہ گوشہ سے حضرت امام حسین (ع) کے چاہنے والے اور شیعیان حیدر کرار کربلا آتے اور آپ کی زیارت کرتے، نوحہ و ماتم کرتے، مجالس عزاداری برپا کرتے اور آنسو بہاتے ہیں اور قدیم الایام سے یہ رسم قائم ہے کہ زائرین پیدل چل کر کوسوں اور میلوں کا راستہ طے کرتے اور کربلائے معلی آتے ہیں۔
صدام کی حکومت کے زوال کے بعد شیعوں کی اہم ترین عزاداری اربعین بن گئی ہے اور کربلا آپ کے چاہنے والوں کا مرکز بن جاتا ہے۔ لوگ دور دور سے خود کو کربلا پہونچاتے ہیں۔ ہر قسم کے لوگ امام حسین (ع) کی زیارت کو آتے ہیں۔ ہر طبقہ کے افراد دور و دراز کا سفر طے کرتے اور کربلا آتے ہیں اور اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں اور اپنی دلی جذبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ امام حسین (ع) سے عشق و محبت کی یہ طوفانی طاقت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتیں لرزہ بر اندام ہوجاتی ہیں۔ ان کے دلوں میں رعب و وحشت پیدا ہوجاتی ہے اور اس عقیدت مند مجمع کو اکھٹا نہ ہونے دینے کے لئے نہ جانے کیسے کیسے خطرناک اقدامات کرتے اور لوگوں کے خون سے ہولیاں کھیلنے کا منصوبہ بناتے ہیں لیکن حق، حق ہے اور باطل، باطل، باطل کو رسوا اور ذلیل ہونا ہی ہے۔ اس کی سازش ناکام ہوتی ہے اور ہوتی رہے گی۔
لیکن عشق حسینی کی آگ کبھی سرد نہیں پڑے گی۔ اربعین کے دن زائرین کے مجمع سے گھبراہٹ اس لئے ہوتی ہے کہ بنی امیہ کے مظالم کی قلعی کھلتی ہے۔ اس کے ظلم کا پردہ فاش ہوتا ہے اور ہر دور عصر کی باطل طاقتیں اپنے اقتدار کے خاتمہ سے خوفزدہ ہوتی ہیں۔ آپ امام حسین کا چہلم منائے خوب زور و شور اور لگن سے منائیں تا کہ باطل کے دل ہل جائیں مگر اس کے لئے خلوص شرط ہے۔ دل کھول کر منائیں، زینب کبری اور امام سجاد (ع) اور جابر کی سیرت پر چلیں، آداب زیارت کے ساتھ زیارت کریں اور دشمن کو پیغام دیں کہ ہم خون سے اسلام کی آبیاری کرتے ہیں، ہمیں موت کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔ ہم اسلام اور انسانیت کی حیات کے خواہاں ہیں، ہم زندہ قوم ہیں اور دوسروں کو زندہ رکھنے اور مردہ قوموں کو بیدار کرنے کے لئے غم مناتے اور چہلم کے دن کے بعد آکر اپنے مقتدا اور پیشوا امام حسین (ع) کی عزداری کرکے، فرش عزا بچھاتے اور آپ کی راہ میں نذر و نیاز کرتے ہیں۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں: ایام اللہ کو ہمیشہ یاد رکھو، ان کی یاد مناؤ ، اس میں برکت ہے، اس میں انسانیت کی حیات ہے۔ محرم و صفر ہی نے اسلام کو زندہ رکھا ہے، اسی سے انسانیت اور آدمیت باقی ہے۔