محمدبن ابی بکر خلیفہ اول ابوبکر بن ابی قحافہ کے فرزند ہیں۔ آپ کی ماں کا نام اسماء ہے۔ ان کا لقب ابوالقاسم، ان کے معروف رشتہ دار ابوبکر، عائشہ اور اسماء ہیں۔ یہ 14 ذی القعدہ سن 10 ھ ق کو ذوالخلیفہ مقام پر پیدا ہوئے اور 8/ صفر سن 38 ھ ق کو مصر میں وفات ہوگئی۔ یہ حضرت علی (ع) کے اصحاب و انصار میں سے ایک بلند پایہ صحابی اور ناصر تھے اور حضرت علی (ع) ہی کی طرف سے مصر کی گورنر بنائے گئے تھے۔
جب ابوبکر کا انتقال ہوگیا تو جناب اسماء حضرت علی (ع) کی زوجیت میں آگئیں۔ اس وقت محمد کی عمر تین سال تھی۔ اس لئے محمد، حضرت علی (ع) کے گھر میں اور آپ کی آغوش میں پلے بڑھے ہیں۔ ان کے اور امام کے درمیان دو طرفہ محبت تھی اور امام انہیں اپنا بیٹا کہتے تھے۔ حضرت علی (ع) کے نزدیک ان کا مقام اور مرتبہ وہی ہے جو رسولخدا (ص) کے نزدیک ابوذر کا تھا۔
محمد بن ابوبکر کے بارے میں حضرت علی (ع) کا ارشاد: محمد بن ابوبکر ایک نیک سیرت، زحمت کش کارگزار، برندہ تلوار اور (دشمن کے سامنے) ایک مضبوط اور استوار رکن تھے۔ نہج البلاغہ میں ان کے بارے میں ہے کہ وہ میرے دوست تھے اور میں نے انہیں اپنی اولاد کی طرح پرورش کی ہے۔ صدر اسلام کے اکثر تاریخی مآخذ محمد بن ابی بکر کی صداقت، دیانت اور نجابت کی گواہی دے رہی ہیں۔ یہ حضرت علی (ع) کے پانچ خاص لوگوں میں سے ایک تھے۔ ان کا نظریہ تھا کہ سابق خلاء نے مسلمانوں کی خلافت حاصل کرنے میں علی (ع) کا حق پامال کیا ہے جبکہ مقام خلافت کے لئے آنحضرت سے کوئی افضل و اعلی نہیں ہے۔
حضرت امام جعفر صادق (ع) سے منقول ہے کہ جب محمد بن ابی بکر، حضرت علی (ع) کی بیعت کرنا چاہتے تھے تو آنحضرت (ع) سے عرض کیا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ایسے امام ہیں جن کی اطاعت واجب ہے اور میرے والد (ابوبکر) جہنم میں ہوں گے۔ محمد بن ابی بکر، حضرت علی (ع) کے حواریوں میں شمار ہوتے تھے۔ محمد بن ابوبکر کی قدر و منزلت کے بارے میں ائمہ اطہار (ع) سے احادیث نقل ہوئی ہیں؛ منجملہ یہ کہ عمار یاسر اور محمد بن ابی بکر خداوند عالم کے حضور گناہ اور نافرمانی کرنے پر کبھی راضی نہیں ہوتے تھے۔ محمد بن ابی بکر نے اپنے والد ابوبکر سے بیزاری کرنے کے لئے حضرت علی (ع) کی بیعت کی۔ اسی طرح خلیفہ دوم سے بهی بیزاری کا اظہار کیا۔ محمد اگرچہ اہلبیت (ع) میں نہیں تھے لیکن ان لوگوں کی طرح نجیب اور پاکیزہ تھے اور اپنے گھرانے میں سب سے زیادہ پاک و پاکیزہ اور نجیب تھے۔
محمد بن ابی بکر نوجوانی کا دور گذارنے اور سن بلوغ تک پہونچنے کے بعد ایک سپاہی کے عنوان سے عثمان کے زمانہ کی جنگوں میں غیر مسلموں کے خلاف شرکت کرتے تھے۔ ان کی عثمان سے مخالفت کی ایک وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ایک جنگ جسے "صواری" کہتے ہیں؛ میں مسلمانوں کی دریائی فوج کی کمانڈری عبداللہ بن سعد بن سرح کو دی تھی جبکہ رسولخدا (ص) نے اس شخص کا خون مباح شمار کیا تھا اور اسے سرزمین حجاز سے شہر بدر کردیا تھا۔ اس کے کفر پر قرآن نے بھی تصریح کی ہے۔