من کنت مولاه

غدیر؛ علمائے اسلام کی نظر میں

فخر رازی اس آیت کے نزول کے دس اسباب بیان کرتے ہیں لیکن دسویں سبب میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی (ع) کی عظمت اور فضیلت کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور پورا واقعہ لکھا ہے

لفظ غدیر کے لغت میں چند معانی ہیں: پانی کا ایک ٹکڑا، تالاب اور جھیل۔  غدیر خم اسلام کے مکہ اور مدینہ دو عظیم شہروں کے درمیان واقع "جحفہ" نامی ایک مقام پر واقع ہے۔

غدیر، انسانیت اور آدمیت کی جلوہ گری، انسانوں کی ہدایت و رہبری، عدل و انصاف کی تجلی، رسالت کا تسلسل، امامت کا آغاز، اسلام و قرآن کی ضیا باری، لوگوں کی قیادت اور رسول کی جانشینی کے اعلان کادن ہے۔ غدیر علم و آگہی کی ترقی، صنعت و حرفت کی پیشرفت کا نام ہے۔ غدیر انسانی اور اخلاقی اصول کی پاسداری کا نام ہے۔ غدیر، عالم انسانیت میں نور تاباں اور شمع فروزاں کا نام ہے۔ غدیر اسلام و قرآن کی صداقت اور حقانیت کا مظہر، غدیر، اصول و ضوابط کی پابندی کا مصدر اور اس کی یاد میں لوگوں کی خبر گیری کرو، اس کی یاد میں یتیم پروری اور مسکین نوازی کرو، جشن منا اور خوب مناؤ لیکن حضرت علی (ع) کی عملی سیرت کے ساتھ۔ مظلوم کی نصرت اور دادرسی کرو، اس کی فریاد کو پہونچو، علی (ع) کو کسی قوم اور خطبہ سے مخصوص نہ کرو، کردار علی (ع) کی جلوہ گری کسی قوم، خاندان، ملک اور علاقہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ حضرت علی (ع) عالم انسانیت کے پیشوا، رہبر اور امام ہیں۔

صاحب غدیر، حضرت علی (ع) کو آدمیت اور انسانیت کا رہبر بنا کر پیش کرو پھر روز غدیر کے اعلان کا مفہوم ادا ہوگا۔ علی (ع) کا حق اس وقت ادا ہوگا جب ہم آپ کی زندگی کا مطالعہ کرکے اپنی روش زندگی کو آپ کی سیرت کے سانچے میں ڈھالیں گے۔ علی (ع) کو دنیا کا ہر انصاف پسند، منصف خراج عالم اور دانشور مانتا ہے اور آپ کے بارے میں اپنی کمی علمی کے باوجود کچھ فضائل ذکر کردیتا هے۔

جب اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی (ص) اپنے آخری حج سے واپس آرہے تھے تو آپ نے 18/ ذی الحجہ 10/ ق کو مقام جحفہ جہاں غدیر خم ہے، پر لوگوں کو روک کر فرمایا: جو لوگ آگے جاچکے ہیں انہیں واپس بلاؤ اور جو پیچھے رہ گئے ہیں ان کا انتظار کرو اور جب سب یکجا ہوگئے تو آپ نے نماز جماعت کا حکم دیا سب نے جماعت سے نماز پڑھی۔ نماز کے بعد رسولخدا (ص) نے ایک طولانی خطبه دیا جس میں زیادہ تر وعظ و نصیحت اور خوف خدا کی بات کی۔ یاد رہے کہ یہ نماز جماعت اور یہ طولانی خطبہ شدت کی دھوپ اور گرمی میں دیا جارہا تھا۔ اس کے بعد حضرت علی (ع) کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اٹھایا کہ آپ کے بغل کی سفیدی نمودار ہوگئی اور فرمایا: "من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ"  یاد رکھو جس کا میں مولا، سرپرست اور حاکم ہوں اس کے علی مولا، سرپرست اور حاکم ہیں۔

تفصیل سے پورا واقعہ ذکر نہیں کرنا ہے، بس اشارہ کررہا ہوں کہ اس دن عظیم اور تاریخی واقعہ سارے مسلمان قبول کرتے اور مانتے ہیں اور اسے مختلف طرق سے روایت بھی کیا ہے۔ شیعہ اور علمائے شیعہ سارے کے سارے اس واقعہ کو مانتے ہیں اور کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔ رہے علمائے اہلسنت، تو ہم یہاں بطور مثال کچھ اکابر علماء کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔

1۔ اہلسنت کے مشہور مورخ طبری نے حدیث غدیر کو 75/ طرق سے روایت کی ہے اور اس موضوع پر "الولاة" نامی مستقل ایک کتاب لکھی ہے۔

2۔ اہلسنت کے دوسرے مشہور عالم ابن عقدہ نے اس حدیث کو 105/ طرق سے روایت کی ہے اور اس موضوع پر "الموالاة" نامی مستقل ایک کتاب لکھی ہے۔ صرف ان لوگوں نے ولایت کے معنی کے بارے میں اپنے اپنے فہم و شعور اور سلیقہ کے مطابق اختلاف کیا ہے۔ لیکن رسولخدا (ص) کے روز غدیر دعائیہ جملہ پر غور کرنے سے اندازہ ہوجائے گا کہ رسولخدا (ص) نے مولا کو کس معنی میں استعمال کیا ہے۔

رسولخدا (ص) جیسے عظیم المرتبت انسان، وحی الہی کے اشارہ پر گفتگو کرنے والی ذات والا صفات کی دعا اس ذات اور شخصیت ہی کے لئے مناسب اور سزاوار ہے جو امت مسلمہ کی پیشوائی اور رہبری کی اپنے کاندھوں پر ذمہ داری رکھتا ہے اور یہ قرینہ ہے کہ رسولخدا (ص) نے اس دن حضرت علی (ع) اپنے خلیفہ اور مسلمانوں کے رہبر اور امام کے عنوان سے اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ اہلسنت کے مشہور واحدی اپنی اسباب نزول نامی کتاب میں لکھتے ہیں : یہ آیت، غدیر کے دن حضرت علی بن ابی طالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ فخر رازی اس آیت کے نزول کے دس اسباب بیان کرتے ہیں لیکن دسویں سبب میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی (ع) کی عظمت اور فضیلت کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور پورا واقعہ لکھا ہے۔

امام خمینی (رح) سن 1365ش کو حکومت کے سربراہوں کے مجمع میں واقعہ غدیر کے بارے میں فرمایا :

حکومت یہ ہے کہ حضرت علی (ع) نے ابن عباس سے فرمایا: ابن عباس! حکومت میری نظر میں اس معمولی جوتی سے بھی کم اہمیت رکھتی ہے۔ جس کی اہمیت ہے وہ معاشرہ میں لوگوں کے درمیان انصاف قائم کرنا اور عادلانہ نظام چلانا ہے۔ حضرت امیر (ع) اور آپ کی اولاد کے نزدیک جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ خدا کی مرضی کے مطابق لوگوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنا اور جب تک رہے لوگوں کے درمیان عدل قائم کیا۔ حضرت علی (ع) کی شخصیت کے بارے میں کیا بیان کرسکتے ہیں۔ اور کون کیا کہہ سکتا اور لکھ سکتا ہے۔ اس عظیم انسان اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنا ہم جیسے انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔

حضرت علی (ع) کی وجہ سے غدیر کو عظمت اور فضیلت ملی ہے نہ غدیر کی وجہ سے حضرت علی (ع) کو؛ حضرت علی (ع) نے غدیر کو ایجاد کیا ہے اور آپ کی وجہ سے غدیر کی اہمیت ہے۔ غدیر اس زمانہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر عصر و زمانہ اور ہر قوم و ملت اور ملک و علاقہ کے لئے ہے۔

ای میل کریں