امام خمینی (رح)

قانون کی پاسداری

رسولخدا (ص) اور آپ کے بعد علی (ع) بھی قانون کے تابع تھے

قانون ایک قوم و ملت اور مکتب کے غور و فکر کا نتیجہ اور خلاصہ ہوتا ہے۔ اس کا احترام ملت اور انسان کے عظیم حصہ کا احترام ہے۔

ایک مہذب اور متمدن قوم کا اہم ترین امتیاز قانون کا رکھنا اور اس کا احترام کرنا ہے اور یہ احترام تمام افراد اور گروہ کی جانب سے ہو نہ کہ کوئی کرے اور کوئی نہ کرے۔ معمولا ایران کی تاریخ میں حکمرانوں کی باتیں قانون شمار ہوئی تھیں اور ایران کے پسماندہ ہونے اور قافلہ تمدن سے بچھڑنے کا ایک سبب یہی امر ہوگا۔ یورپ میں رنسانس اور بورژوارسی کی پیدائش کے بعد روشن فکر افراد نے حکومت کے حدود اور اختیارات معین فرمائے اور اسے قانون کا نام دیا اور حکومت کو اس کا نگہبان افراد دیا۔

اسی طرح امن و امان اور ہر قسم کا تحفظ قانون کی روشنی میں ہوا نہ تلوار کے سایہ میں۔ قانون انسان کو ہر قسم کے ظلم و جور سے روکتا ہے، قانون بے راہ روی اور انحراف پر پابندی لگاتا ہے۔ قانون ہی جس کی وجہ سے معاشرہ ہر طرح کی آفتوں سے محفوظ رہتا ہے۔ قانون انسانیت کا پیغام دیتا ہے۔ قانون کی پابندی ہر شخص کو مطمئن کرتی ہے۔ قانون لوگوں میں اعتماد بحال کرتا ہے، قانون سے ذہنی اور فکری سکون حاصل ہوتا ہے۔ قانون انسان کو حقیقی آزادی دلاتا ہے۔ انسانی معاشرہ اور فرد کو ہر طرح کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ لہذا قانون ہو اور اس کی ہر طرح سے حمایت ہو۔ سارے لوگ اس کی پاسداری کریں یعنی اس کے قانون پر عمل کریں۔ قانون کو فرد اور معاشرہ میں نافذ کرے۔ قانون کا ہونا ضروری ہے۔ قانون انسان کو بے مہار ہونے سے روکتا ہے۔

امام خمینی (رح) قانون کو قبول بھی کرتے تھے اور اس کے سامنے سب کو برابر سمجھتے تھے نیز آپ خود قانون کا تابع شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اسلام میں قانون حکومت کرتا ہے۔ رسولخدا (ص) اور آپ کے بعد علی (ع) بھی قانون کے تابع تھے۔ الہی قانون کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے تھے۔ اسلام کی حکومت، قانون کی حکومت ہے۔ اس طرز حکومت میں حاکمیت میں حاکمیت خدا سے مخصوص ہے اور قانون، فرمان اور حکم سب خدا کا ہے۔ اس یا خدا کا قانون سارے افراد پر نافذ ہے اور اسلامی حکومت پر قانون کی مکمل حکمرانی ہے۔

امام خمینی (رح) قانون کو ہر چیز کے سرفہرست جانتے ہوئے فرماتے ہیں:

قانون سر فہرست ہے لہذا ہر ملک کے سارے افراد خود کو اس قانون کے سانچے میں ڈھالیں اور اسی کے مطابق زندگی گذاریں۔ اگر قانون نے ان کے خلاف کیا تو خود قانون کے سامنے تسلیم ہوجائیں۔ اس وقت ملک قانون کا ملک کہلائے گا۔

قانون پرستی اور اس کا احترام انسانی کرامت و شرافت کا نمایاں نمونہ ہے کہ امام (رح) اس کی طرف خاص عنایت رکھتے تھے اور کبھی خود کو قانون سے بالاتر نہیں جانتے تھے۔ جب قانون کی حکومت ہوگی اور سارے لوگ قانون کے طابق رفتار کریں گے تو کسی وقت کسی پر ظلم و زیادتی نہیں ہوگی۔

ای میل کریں