زائرین خانہ خدا کی مظلومانہ شہادت

زائرین خانہ خدا کی مظلومانہ شہادت کا سوگ

خانہ خدا کے زائرین اسلامی تعلیمات اور قرآن کی ہدایات کی روشنی میں ہر حال اسلام کے دشمنوں سے برائت کا اظہار کرتے ہیں

جمہوری اسلامی ایران میں 9/ مرداد 1346/ ش مطابق 6/ ذی الحجہ سن 1407/ ق کو ہزاروں ایرانی زائرین کے سوگ کا دن ہے۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ مذکورہ تاریخ کو ہزاروں ایرانی اور دیگر اسلامی ممالک کے کچھ زائرین مکہ معظمہ اور خانہ خدا میں مشرکین سے برائت کے الہی فریضہ کو انجام دے رہے تھے کہ سعودی عرب کی وہابی حکومت کے مامورین نے ان بے گناہوں زائرین پر وحشیانہ حملہ کرکے شہید کر ڈالا۔

خانہ خدا کے زائرین اسلامی تعلیمات اور قرآن کی ہدایات کی روشنی میں ہر حال اسلام کے دشمنوں سے برائت کا اظہار کرتے ہیں بالخصوص اسلام کے کٹر دشمن امریکہ اور صہیونسٹ سے اپنی برائت کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہی کہ جو مسلمان ہے اور قرآن کو  مانتا اور اسے سمجھتا ہے وہ اپنے اس الہی فریضہ پر عمل کرے گا اور اگر کرتا ہے تو ان نام نہاد مسلمانوں کا کیا بگاڑتا ہے کہ وہ اتنی بے رحمی کے ساتھ اسلام کا نام لیکر زائرین بیت اللہ کو خاک و خون میں غلطاں کرتے ہیں؟ کیا اس طرح کا کام کوئی مسلمان کر سکتا ہے؟ کیا کوئی مسلمان قرآن اور رسولخدا (ص) کے فرمان کی مخالفت کرسکتا ہے؟ زائرین پر اس وجہ سے حملہ اسلام اور قرآن پر حملہ ہے۔ قرآن کے احکام سے انکار ہے۔

خلاصہ اس بے رحمانہ اور ظالمانہ یورش و بغاوت سے خانہ امن الہی میں 400/ ایرانی حجاج شہید ہوئے اور ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ سعودت عرب کے سربراہوں کا خانہ خدا کے زائرین پر حملہ اس بات کی عکاسی کررہاہے کہ یہ لوگ اس ملک میں حرمین شریفین کی خدمت کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ یہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو نابود کرنے کے درپئے ہیں اور امریکہ اور اسرائیل کی نوکری میں اس درجہ مدہوش اور اندھے ہوچکے ہیں اور ان کی غلامی کی زنجیر میں اس درجہ جکڑ چکے ہیں کہ ان کی غلامی اور نوکری کے لئے اللہ کے محکم احکام کو پامال کرنے کے لئے تیار ہیں۔ کیونکہ معمولی سے معمولی جانوروں کو مارنا گناہ اور قتل شمار ہوتا ہے۔ ایام حرمت میں قتل و کشتار ممنوع ہے۔ وہاں یہ لوگ قتل عام کرنے اور بے دردی سے جان لینے سے گریز نہیں کرتے۔

قرآن پڑھنے والے مسلمان خود غور کریں اور فیصلہ کریں۔ اگر مسلمان حج کے موقع پر مشرکین سے برائت کرتے ہیں اور اس برائت سے اپنے اسلامی اور قرآنی ہونے کا ثبوت دیتے ہیں تو انہیں کیوں برا لگتا ہے؟ ان کا کیا بگڑتا؟ اگر یہ کام خود نہیں کرتے جبکہ کرنا چاہیئے اور بڑھ چڑھ کر کرنا چاہیئے تو دوسروں کو کیوں روکتے اور برائت کرنے پر پابندی لگاتے ہیں؟ مسلمان خود فیصلہ کریں کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے دوست ہیں یا دشمن۔یہ اسلام کی جلوہ گری اور آفاقی شان دیکھنا چاہتے ہیں یا امریکہ اور اسرائیل کی نوکری پسند کرتے ہیں؟ حج کے عظیم اور عالی شان اجتماع میں مشرکین سے برائت کا پروگرام بہت ہی با رونق ہوجاتا ہے اور اسی اہمیت کے پیش نظر امام خمینی (رح) اور آیت اللہ خامنہ ای مشرکین سے برائت کے اس پروگرام کی ہر سال تاکید کرتے تھے اور ہیں۔

6/ ذی الحجہ کو مکہ کے درو دیوار اور آسمان کے ملائکہ حجاج کے ہم آواز ہوکر مشرکین سے برائت کے نعرہ لگارہے، امریکہ اور اسرائیل مردہ باد کے نعرہ لگا رہے، عرب اور عجم اس الہی آواز سے ششدر تھے۔ اجتماع کرنے والے امام خمینی (رح) کا تاریخی پیغام سننے کے بعد "اللہ اکبر" ، "لاالہ الا الله" اور "امریکہ مردہ باد" کا نعرہ لگاتے ہوئے مغرب کی نماز پڑھنے کے لئے حرم کی طرف روانہ ہو رہے تھے کہ اچانک آل سعود کے کارندے آگئے اور کچھ دیر بعد حجاج کی صفوں پر حملہ کردیا اور بندوق کی نوک سے ایرانی زائرین کے سر و چہرہ کو کوٹ ڈالا۔ اسی طرح دوسرا گروہ پتھر برسانے لگا اور زائرین کے خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ یہ حال اسلام کے نام پر حکومت چلانے والے حکام کا حال۔ جنہیں نہ قرآن سے کوئی مطلب ہے اور نہ فرمان رسول سے اور نہ ہی انسانیت کی کوئی فکر ہے۔

کیا دنیا کے کسی قانون میں کسی کو مردہ باد کہنے کی سزا موت ہے؟ ہرگز نہیں۔ وہ بھی اسلام کے دشمنوں کے خلاف نعرہ لگانے سے انہیں اس درجہ بے چینی ہوتی ہے کہ انسانیت کو موت کے گھاٹ اتاردیتے ہیں انسانیت کا خون کردیتے ہیں۔

جمہوری اسلامی ایران کے بانی اور انقلاب کے عظیم روحانی پیشوا حضرت امام خمینی (رح) نے پیغام دیا کہ ہم لوگ اس جانکاہ حادثہ اور روح فرسا واقعہ سے متاثر اور غمگین ہیں۔ کیونکہ یہ کسی کے وہم و گماں میں نہیں تھا کہ امت محمد (ص) اور ابراہیم حنیف کے پیروکاروں اور قرآن کے عاملین کا قتل عام کیا جائے اور اس بے دردی سے انہیں خاک و خون میں غلطان ہونے پر مجبور کیا جائے گا۔ اس کے باوجود ہم خداوند منان کے شکر گذار ہیں کہ ان کی اس ناپاک حرکتوں سے ہمارے انقلاب کو قوت ملی، اس کی تبلیغ ہوئی اور ہماری قوم و ملت کی مظلومیت کا اظہار ہوا اور انہوں نے ہر مرحلہ میں ہمارے مکتب اور ہمارے ملک کی ترقی اور بلندی کی راہ ہموار کی ہے۔

ای میل کریں