امام خمینی (رح) کی فکر و عمل؛ داعش کا علاج

امام خمینی (رح) کی فکر و عمل؛ داعش کا علاج

نوظہور اسلامی شدت پسندوں کی جڑ مشرق وسطی میں مغربی حکومتوں کے غلط رویوں کا نتیجہ ہے

تحریر: احسان اقبال سعید

جس وقت شدت پسندی مختلف شکلوں میں ایک بحران اور عمومی کینسر بن چکی تھی اور روز بروز بڑھ رہی ہے تو اس منحوس موجود سے مقابلہ کی راہ حل کے بارے میں مفکرین، دانشوروں اور سیاست دانوں کے درمیان گفتگو جاری ہے۔ مغربی دنیا کمیونزم کے خواب کے بعد اس قسم کا قوی، خطرناک اور ہولناک سایہ اپنی زندگی کی بلندی اور اپنے اقدار میں محسوس نہیں کیا تھا۔

نوظہور اسلامی شدت پسندوں کی جڑ مشرق وسطی میں مغربی حکومتوں کے غلط رویوں کا نتیجہ ہے۔ اپنے خوفناک کاموں کی وجہ سے دنیا کے کونہ کونہ یہاں تک خود قلب یورپ میں بھی ایک بڑی افت اور بلا بن گئے ہیں۔ مغرب ان مقابلوں کے بعد سب سے پہلے ایک اصلی انتخاب تک پہونچےاور تعامل کے مسلم راہ کی حقیقت کا ادراک کرے لیکن سوال یہ ہے کہ مغرب کون سے اسلامی فکر و نظر اور روایت کا انتخاب کرے؟ آیا وہابی اور سعودی اور ان کی ناجائز اولاد داعش اور تمام شدت پسندوں اور خونی سربراہ سے تعامل اور تامل کے طرفدار ہوں یا پھر امام خمینی (رح) کی فرک و نظر جو پاکیزہ اسلام کا جلوہ اور انقلاب ہے اور رحمانی بھی ہے، پر عمل کریں؟

تاریخ میں مغربی طاقتیں ہمیشہ اسلام کی طاقت کا انکار کرتی رہیں اور اسے کم اہمیت جانتی رہی ہیں۔ جب حضرت امام خمینی (رح) نے ایک شیعہ مرجع تقلید کے عنوان سے اس صدی کے آخری اور سب سے بڑے انقلاب کی رہبری کی ذمہ داری لی تو ان یورپ والوں نے پھر تو امام (رح) کی اس الہی اور رحمانی آواز کا انکار کیا، اہمیت نہ دی، انسان خواہی کی آواز جو الہی مکتب اور تفکر کی گہرائی سے نکلی تھی کو سنی ان سنی کردیں۔ لیکن آج دوبارہ امام خمینی (رح) کی فکر اور آپ کا عمل ہے جو پہلے پاک طینت اور آزاد انسانوں کو میدان مقابلہ میں لاکر کھڑا کرتا ہے اور دنیا میں موجود داعشی شدت پسندوں کی مہلک بیماریوں کا علاج اور اس کا مداوا ہے۔

 اس وقت داعش اور ان کے جیسے تمام شیاطین مشرق وسطی میں ننگا ناچ کررہے ہیں۔ ان کی شام اور عراق میں کارکردگی اسی مذہبی نفرت کی عکاسی کررهی ہے۔ امام خمینی (رح) نے ایک شیعہ مرجع کے عنوان سے تحریک کے آغاز سے اس کے انجام سن 1979 ء تک اسلام اور مسلمان دوستی اور برادری پر تاکید کی ہے۔ نہ صرف شیعہ کے لئے بلکہ امام (رح) نے جہاں کہیں بھی ظلم و جور اور فتنہ و فساد دیکھا یا سنا اس کے مقابلہ میں ڈٹ گئے اور دوسرے مقابلہ کرنے والوں کے لئے الہی الہام بخش نمونہ بنے اور آپ مسمانوں کے درمیان سے ظلم و ستم اور کجی کے خاتمہ کے خواہاں رہے۔ اس میں شیعہ اور سنی کے دریمان کبھی کوئی فرق نہیں کیا بلکہ انسان پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی۔

امام خمینی (رح) ظلم و ستم اور یہودیوں کے غاصبانہ قبضہ کی مذمت کی اور اس کو غلط جانتے تھے اور اس غاصبانہ قبضہ اور دنیا میں بے مثال نسل پرستی کے خلاف آواز بلند کرنے، اس کا مقابلہ کو فلسطینی سنی برادران اور لبنانی شیعہ بھائیوں کے لئے واجب جانتے تھےاور ہمیشہ حمایت کرتے تھے۔ امام خمینی (رح) کی فرک و عمل میں مغرب سے جنگ اور وہاں کے عوام سے جنگ و جدال کا کوئی مقام نہیں تھا یعنی امام (رح) مغرب کی انسانیت سوز بدعنوانی اور وہاں کے مظالم سے ٹکر لینے کو واجب جانتے تھے اور حمایت کو اپنا شعار اور شیوہ زندگی جانتے تھے۔ امام (رح) سامرجی سیاست کا مقابلہ کرتے تھے اور اسلامی سرزمینوں پر ان کے اس طرح حملوں کو برداشت نہیں کرتے تھے۔

امام خمینی (رح) یورپ کی ٹکنالوجی اور صنعت کے مخالف نہیں تھے بلکہ ان کی ترقی سے فائدہ اٹھانے کو عقلمندی جانتے تھے۔ امام خمینی (رح) کا فرانس میں وجود اور یورپ کے قلب میں بیٹھ کر اسلامی انقلاب کی رہبری امام خمینی (رح) کے انہی نظریات کی عکاسی کر رہا ہے۔ امام (رح) نوفل لوشاتو میں اپنے قیام کے دوران ہمسایہ اور وہاں کے رہنے والوں کے سکون اور آرام کی تاکید فرماتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے۔ اب اس رحمانی نظریہ کو 1979ء میں وہابیت کے مغربی ہم پیمان لوگوں اور وحشی شدت پسندوں کے ترازو میں رکھ کر کہ وہ بوڑھے بچے ، مرد اور عورت سب کو میٹرو، سڑکوں اور گلی کوچوں میں مار دیتے ہیں، دیکھتے ہیں۔ یقینا اس شدت پسندی کا علاق امام خمینی (رح) کے اندیشہ و عمل کو بروئے کار لانا ہے۔ امام خمینی(رح) فرماتے ہیں:

اگر سامراج، استحصال کرنے والے، لوگوں کا خون پینے والے اور فاسد افراد نہ ہوں تو انسانیت زخمی نہیں ہوگی ۔

آپ کا کلام اس زخمی انسانیت کا مرہم بنے گا اور شدت پسندی کی گندگی سے نجات مل جائے گی۔ اگر استعمار نہ ہو تو انسان کی بہت ساری مشکلیں خود بخود حل ہوجائیں گی۔

ای میل کریں