تحریر: حیدر جاوید سید
پاکستان میں شیعہ نسل کشی کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور میں سال 1984ء سے اس وقت ہوا جب جھنگ میں انجمن سپاہ صحابہ کی بنیاد رکھی گئی۔ طالب علم آج 34سال بعد بھی اس رائے پر قائم ہے کہ سال 1984ء میں فوجی حکومت کی سرپرستی میں انجمن سپاہ صحابہ کے قیام کا مقصد پنجاب کے جنوبی حصے کے سرائیکی وسیب میں سرائیکی صوبہ کے لئے منظم ہوتی تحریک کا راستہ روکنا تھا۔ فروری 1984ء میں اے ایس پی قائم ہوئی اگلے سال جون 1985ء تک ایک سال اور پانچ ماہ کے دوران جھنگ سے رحیم یار خان کے درمیان فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہوئے قتل مقاتلوں کی وجہ سے جو پراگندگی پھیلی اس کا سب سے زیادہ نقصان سرائیکی قوم پرستوں کو ہوا۔ فوجی حکومت کا پہلا مقصدجونہی پورا ہوا تو سعودی سرپرستوں کی امداد و ایما پر انجمن سپاہ صحابہ کے کارکنوں کو افغان جنگ میں مصروف تنظیموں کے ذریعے عسکری تربیت دلوائی گئی اور پھر نئے مشن کے لئے میدان میں اتاردیا۔
سال1984ء سے تادم تحریر پاکستان میں 25ہزار شیعہ مسلمان سپاہ صحابہ اور اس کی ہم خیال تنظیموں کے خونی لشکروں کا شکار ہوئے اس دہشت گردی سے یوں تو پورا ملک متاثر ہوا لیکن سرائیکی وسیب کے پنجاب اور کے پی کے والے دونوں حصے، پشاور، پاراچنار، گلگت بلستان،کراچی، کوئٹہ اور ہنگو متاثرہ شہروں میں پہلے نمبر پر ہیں خونی لشکروں کے ہاتھوں شہید ہونے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، بیوروکریٹ، سکالر، شاعر، قانون دان اور ہزاروں عام شہری بھی شامل ہیں۔ شیعہ مسلم نسل کشی سے متاثرہ شہروں میں ڈیرہ اسماعیل خان کوئٹہ اور کراچی اس لحاظ سے اہم تر ہیں کہ ان شہروں میں قاتلوں نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی حکمت عملی اپنائی مثال کے طور پر دیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں جہاں ایک طرف سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوئی اور طالبان شیعہ نسل کشی کا ثواب کمانے میں پیش پیش رہے تو وہیں کچھ عناصر سرائیکی پشتو تضادات سے فائدہ اٹھایا۔ یعنی دونوں اضلاع کے سرائیکی بولنے والوں کی قومی جدوجہد کو سبوتاژکرنے والی قوتوں نے شیعہ نسل کشی کی آڑ میں اپنے مقاصد حاصل کئے اس عمل میں چند صوفی سنی بھی شہید ہوئے ۔ اسی طرح کوئٹہ میں جہاں ہزارہ شیعہ مسلم لشکر جھنگوئی و جند اللہ کی دہشت گردی کا نشانہ بنے وہیں شفیق مینگل کے نام نہاد امن لشکر نے بھی ہزارہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی اور اس تاثر کو بڑھاوا دیا کہ بلوچ قوم پرست ہزارہ برادری کا کوئٹہ میں وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں ادھر ڈیرہ اسماعیل خان اور کوئٹہ کی طرح کراچی میں آبادی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے شیعہ مسلمانوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر مختلف الخیال نسلی و سیاسی گروہوں پر ملبہ ڈالوایا گیا تا کہ اصل مجرموں اور سہولت کاروں کی طرف لوگوں کی توجہ نہ ہونے پائے۔
شیعہ نسل کشی ایک ایسی تلخ حقیقت سے جس انکار ممکن نہیں سپاہ صحابہ ، لشکرجھنگوئی، طالبان اور جنداللہ کے ساتھ لال مسجد والوں کا عمر ٹائیگر گروپ تو پہلے سے اس کام میں مصروف تھے اب پچھلے دو تین سالوں سے داعش کے درندے بھی شیعہ نسل کشی کے لئے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ پچھلے 34برسوں سے جاری اس شیعہ نسل کشی کو ریاست کے کسی ادارے نے سنجیدگی سے نہیں لیا اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ شیعہ نسل کشی میں مصروف اکثر عسکری تنظیمیں ریاستی اداروں کے اُن لادلوں کی تھیں جن سے مختلف محاذوں پر کام لینے کے عوض ملک کے اندر ان کی عسکری سرگرمیوں سے چشم پوشی برتی گئی یہ وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کیونکہ خطے میں دیوبندی وہابی جہادی سرگرمیاں ریاست کی پالیسیوں کا حصہ تھیں اس لئے ریاست نے اپنے حقیقی کردار پر توجہ دینے سے پہلو تہی برتی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
شیعہ نسل کشی اپنی جگہ ایک المیہ ہے لیکن اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ شیعہ حقوق کے لئے میدان میں موجود قیادتوں نے توفیق کے مطابق یہ ضرور کیا کہ اپنے کارکنوں میں اندھی جذباتیت بھری تقلید کو پروان چڑھایا نتیجہ یہ ہے کہ ساتویں آسمان پر بیٹھی قیادتیں تو دور ان کے کارکنان سوال کرنے والوں کو پھاڑ کھانے کے لئے دوڑتے ہیں۔ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ریاست کے ایک ادارے اپنے مقاصد کیلئے دوسرے طبقوں کی طرح شیعہ تنظیموں میں بھی تقسیم در تقسیم کے کھیل کو بڑھاوا دیا یہ وہ حالات ہیں جن سے مکتب امامیہ کی نئی نسل میں مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔ زیادہ وضاحت کے ساتھ معاملے کو سمجھنے کے لئے دو باتیں ذہن میں رکھیں۔
پاراچنار میں نوجوانوں نے مسلط قیادتوں سے ہٹ کر لائحہ عمل مرتب کیا تو ریاست جھکنے پر مجبور ہوئی کوئٹہ میں خواتین کو میدان میں اترنا پڑا، جلیلہ حیدر کی تادم مرگ بھوک ہڑتال نے عالمی شہرت حاصل کی تو آرمی چیف کو مجبوراً کوئٹہ جانا پڑا۔ کیا اب یہ امید کی جائے کہ آرمی چیف اور وزیر داخلہ نے کوئٹہ میں جو وعدے کئے ہیں وہ پورے ہوں گے؟۔سادہ سا جواب یہ ہے کہ جب تک ریاست کی ترجیحات تبدیل نہیں ہوتیں یہ وعدے ایفا نہیں ہوں گے۔ریاست شیعہ نسل کشی رکوانا چاہتی ہے تو کالعدم تنظیموں اور سہولت کاروں کی سرگرمیاں بند کروائے۔ کفر کے فتوے دینے والوں کی گردن میں قانون کا پٹہ ڈالے اور دوسری طرف خود مکتب امامیہ کے نئی نسل کو بھی چاہئے کہ وہ پاراچنار اور کوئٹہ والوں کی طرح ملک بھر میں خودمیدان میں اترے اور ریاست کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے جب تک یہ نہیں ہوگا ریاست کا دوغلا پن جوں کا توں رہے گا۔حرف آخر یہ ہے کہ ریاست کے پالے ہوئے لشکروں کے زخم خوردہ مظلوم طبقات کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے۔ اتحاد کی طاقت سے ہی مظلوم طبقات ریاست کو مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ آئین و قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے اور قاتلوں کی دلداری ترک کردے۔
حیدر جاوید سید