جن علماء کرام کو حضرت امام خمینی (رح) کے ساتھ جلا وطن کیا گیا تھا، انہیں بھی اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنے وطن واپس آسکیں، لیکن یه کہ ان میں سے ہر ایک مشہد، قم اور تہران میں اپنے اپنے روحانی اور ہم فکر افراد کے ساتھ رابطے میں تھے اور اس طرح سے وہ ایرانی قوم سے مسلسل رابطے میں تھے۔ وہ علماء بھی اس ارتباط کے ذریعے امام خمینی (رح) کے نظریات اور تازہ ترین بیانات کو اپنے ایران میں مقیم دوستوں تک پہچایا کرتے تھے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے جوابات کو بھی امام (رح) تک پہچایا کرتے تھے، اور اس شعبے میں ہمارے شہید ہوجانے والے بھائی آقا مصطفی خمینی (رح) بہت زیادہ فعال تھے، ان کے ایران میں مقیم روحانیوں اور باقی ایرانی قوم کے ساتھ، مستقیم اور مضبوط روابط تھے اور اس طرح وہ بڑے آرام سے امام (رح) کے بیانات کے یہاں منتقل کیا کرتے تھے اور اسی طرح ملت کی مشکلات کو امام تک پہچایا کرتے تھے حتی کہ ان کی زوجہ بھی جب ایران میں آیا کرتی تھی تو وہ بھی اس رابطے کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ کچھ مدت کے بعد ساواک کو بھی اس بات کی خبر ہوگئی۔ اس لئے انہوں نے ایک دفعہ انہیں باڈر پر روک لیا اور ان کی تلاشی لی۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت بھی ان کے پاس کافی سارے خطوط تھے لیکن انہوں نے اس قدر انہیں حفاظت کے ساتھ رکھا ہوا تھا کہ وہ کوئی ایک خط بھی برآمد نہ کرسکے۔