حضرت امام خمینی (رح) نجف اشرف میں پورے قیام کے دوران سال میں چند بار امام حسین (ع) کی خصوصی زیارتوں کی مناسبت سے کربلائے معلی جاتے تھے اور وہاں پر کویت کے رہنے والے نے آپ کے حوالہ ایک معمولی سا مکان کیا تھا، وہی میں قیام کرتے تھے۔
کربلا میں مغربین کی نمازیں مرحوم آیت اللہ بروجردی (رح) کے حسینیہ میں اور ظہرین اسی مکان میں امام خمینی (رح) کی اقتدا میں جماعت سے پڑھی جاتی تھیں۔ گھر پر ہونے والی نماز جماعت زیادہ تر معدود چند احباب کی شرکت سے باہر کے کمرہ میں ہوا کرتی تھی اور جب کبھی نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی تھی تو اس گھر کے صحن میں ہوا کرتی تھی۔ آنگن تقریبا 50/ میٹر کا تھا اور فرش بھی بقدر ضرورت نہیں تھا۔ اس لحاظ سے لوگ اپنی اپنی عبائیں تہہ کرکے مصلی کے عنوان سے اس پر نماز پڑھتے تھے۔
جب امام (رح) اندرونی کمرہ سے جو پشت بہ قبلہ تھا۔ نماز پڑھانے کے لئے آنگن میں آتے تھے مجمع تک پہونچنے کے لئے جماعت کی صفوں کے درمیان سے جانا پڑتا تھا۔ وہاں پر موجود سارے لوگ اس بات سے افتخار کرتے تھے کہ ان کی عباؤں پر امام کے مبارک قدم پڑرہے ہیں اور قاعدتا حضرت امام (رح) بھی اس نکتہ سے واقف تھے۔ اس کے باوجود امام عبور کرتے وقت اس بات کا خیال رکھتے اور کچھ اس طرح قدم اٹھاتے تھے کہ پیچھے کے صفوں سے جہاں پشت پر جوتے اور چپل رکھے جاتے یا جہاں عبائیں بچھی ہوتی تھیں کہ نہ کسی کے جوتوں گر قدم پڑے اور نہ ہی کسی کی عبا پر۔ اس طرح سے آپ نے اپنے مقلدین اور ماننے والوں کو دوسروں کے حقوق کی رعایت کرنے کا درس دیا۔
یہ بھی منقول ہے کہ ایک دن نجف اشرف میں امام خمینی (رح) نماز جماعت کے لئے باہر کے کمرہ میں جانا چاہتے تھے لیکن کمرہ کے سامنے نمازیوں کے جوتے اور چپلیں تھیں اور اتنی زیادہ کے قدم رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ امام جب جوتوں اور چپلوں کے رکھنے کی جگہ پر پہونچے اور یہ صورتحال دیکھی تو رک گئے۔ اور لوگوں کے جوتوں پر قدم رکھنے سے اجتناب کیا۔ یہاں تک کہ راستہ سے ہٹا دیئے گئے اور راستہ کھل گیا اس وقت امام کمرہ میں داخل ہوئے۔ ایسے ہی لوگ اپنے ائمہ (ع) کی سیرت کو زندہ کرتے اور قرآن کے احکام پر عمل کرتے ہیں کیونکہ قرآن اور احادیث میں حق الناس کے متعلق آیات و روایات ہیں۔ کیونکہ حق الناس کی رعایت نہ کرنے والے کو خدا بھی اس وقت معاف نہیں کرے گا جب تک کہ صاحب حق معاف نہ کرے لیکن بات ایک دو موقع کی نہیں بلکہ زندگی کے ہر موڑ اور ہر شعبہ میں اس بات کا خیال رکھنا کہ کسی کا حق پامال نہ ہو۔ایسے ہی علماء کی سیرت قابل اطاعت اور اتباع ہوتی ہے جو اپنی زبان کے ساتھ اپنے عمل سے حق الناس کی ادائیگی کرتے ہیں۔
امام خمینی (رح) کی سیرت طیبہ کا جائزہ لینے سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں حق الناس کا بیحد خیال رکھا اور حتی الامکان کسی کا حق پامال ہونے نہیں دیا۔ آپ نے عملی طور پر دین اسلام کی تبلیغ کی ہے اور لوگوں زبان سے پہلے عمل سے دعوت دی ہے اور تبلیغ دین کی ہے۔ یہی وجہ ہی کہ آج گھر سے لیکر باہر اور ملک سے بیرون ملک لوگ آپ کے اخلاق و کردار کا گن گاتے اور چرچا کرتے ہیں۔
فرانس کے دیہات نوفل لوشاتو میں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ آپ کا اخلاق و کردار کچھ اس طرح تھا کہ جب آپ وہاں سے ایران آنے لگے تو لوگوں کے لئے آپ کی جدائی سخت تھی۔ آپ اپنے پڑوسیوں کے لئے مختلف مناسبتوں پر تحفے و غیرہ بھیجتے تھے، ان کے حق کی مکمل رعایت کرتے تھے اور جب آپ ایران آگئے تو وہ لوگ آپ کو تحفے بھیجتے اور نامہ و پیغام لکھتے اور جواب دینے کی گذارش کرتے اور آپ کے جواب کا شدت کے ساتھ انتظار کرتے تھے۔