ایک دن کچھ لوگ دبئی سے ایک جہاز چرا کر بغداد لے آئے۔ یہ چور ایک تنظیم جو مجاہدین کی ایک جماعت کے طور پر مشہور ہوگئے۔ ایک دن ان جہاز چوروں میں سے ایک شخص امام خمینی (رح) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ انہوں نے یہ کام اسلام کے مقدس اہداف کو حاصل کرنے کے لئے کیا ہے اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب تک انقلاب کامیاب نہیں ہوجاتا، اس وقت تک وہ اسی طرح کے امور انجام دیتے رہیں گے۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ آقا! جو لوگ اس جماعت میں ہیں وہ سب کے سب جوان ہیں اور ان کی نگاہ، اسلامی نگاہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کا قرآن اور نہج البلاغہ کا بھی بہت زیادہ مطالعہ ہے لہذا وہ اسلام کی ترقی اور کامیابی کے لئے یہ کام انجام دے رہے ہیں۔ اس کی ان ساری باتوں کا ہدف یہ تھا کہ امام خمینی (رح) اس گروہ کی تائید کریں اور یہ کہیں کہ واقعا اس گروہ کو یہ کام جاری رکھنا چاہیئے۔ اب جیسا کہ امام خمینی (رح) نے خود فرمایا: "میں نے اسے جواب دیا: میں جب تک تمہارے بارے میں تحقیق نہ کروں تمہاری تائید نہیں کرسکتا ہوں۔" اس پر وہ شخص بھی راضی ہوگیا اور اس نے کہا کہ وہ اپنی تمام تر اسناد اور ثبوت امام (رح) کے پاس لے آئے گا اور اس کے بعد وہ خود بھی ہر روز امام (رح) کے پاس آدھے گھنٹے سے لے کر ایک گھنٹے تک آئے گا اور آپ کے حضور اپنی صداقت کی دلیلیں پیش کرے گا کہ امام (رح) مطمئن ہوجائیں اور ان کی جماعت کی تائید کردیں۔
امام فرماتے ہیں کہ وہ شخص ایک ماہ تک میرے پاس آتا رہا اور مختلف امور پر اپنے نظریات بیان کرتا رہا کہ جن میں اسلامی، اجتماعی اور سیاسی مسائل و غیرہ کے ساتھ ساتھ نظام مملکت کو چلانے کے طریقے، اور اسی طرح کئی اور مسائل شامل تھے۔ امام (رح) فرماتے ہیں: "وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتا رہتا اور میں فقط سنتا رہتا تھا۔"
اس کے بعد فرمایا: جب اس نے اپنے تمام اہداف و مقاصد کو میرے سامنے بیان کرلیا اور اپنی تمام تحریریں مجھے دکھالیں تو میں اس کی باتیں سننے اور تحریریں پڑھ لینے کے بعد اس نتیجے تک پہنچا کہ یہ باغیوں اور بھٹکے ہوئے لوگوں کی وهی (چپ گرا) جماعت ہے کہ جو ایران کے اندر ہزار سالہ قدیمی اسلام کو نزدیک سے پہچانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس ملک میں، سوائے اسلامی اصولوں کی پیروی کرنے کے کوئی تبدیلی آنے والی نهیں ہیں اور کوئی جماعت بھی اسلام کا سہارا لئے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی ہے اور نہ ہی اسے عوامی حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔ اس لئے یہ چاہتے ہیں کہ ظاہرا اسلام کا دم بھر کر وہی مارکسزم، کمیونزم اور ملحدانہ نظام کو لاگو کریں۔
اس کے ساتھ ساتھ ایران سے بھی بہت سارے لوگوں نے امام خمینی (رح) کو خط لکھے کہ اگر آپ نے اس جماعت کی تصدیق نہ کی تو یاد رکھیں کہ انقلاب اپنے راستے میں ہی شکست کھا جائے گا کیونکہ اس جماعت کو عوام کی بہت زیادہ حمایت حاصل ہے۔ لیکن امام (رح) کیونکہ ایک فرض شناس انسان تھے اس لئے ان تمام حالات کے باوجود، وہ اپنے فیصلے پر ثابت قدم رہے اور ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے، لہذا آج یہ سب پر واضح ہوگیا ہے کہ منافقین کی یہ جماعت کس قدر خطرناک اور منحرف ہے۔ درحقیقت یہ ایک سازش تھی کہ جو امریکہ نے بنائی تھی۔ امریکہ جو جب یہ یقین ہوگیا تھا کہ اب انقلاب اور نہضت خمینی (رح) شکست ناپذیر ہے تو اس وقت انہوں نے اس سازش کا سہارا لیا کہ ایک چھوٹی سی جماعت کو اس طرح سرگرم کرکے اس کے ذریعے اپنا ناجائز اہداف حاصل کرے۔
اس کے بعد ایک اور چھوٹی سی جماعت 1970ء میں وجود میں آئی کہ جس کے اغراض و مقاصد میں مارکسزم اور کمیونزم کو تقویت دینا تھا، لہذا اس جماعت نے ایران میں بہت برے اثرات چھوڑے، اور جو لوگ ظلم اور ستم کی چکی میں پس پس کر ہمت ہار چکے تھے، وہ اس گروہ کے ساتھ ملحق ہوگئے اور انہیں اس جماعت میں ایک امید کی کرن دکھائی دینے لگی۔ لہذا اس بات کا بہت زیادہ امکان تھا کہ شاید نہضت امام (رح) اپنے راستے سے بھٹک جائے۔ یہی وہ مقام تھا کہ امام (رح) نے اس جماعت کی پشت پر، ایک ایسی چوٹ لگائی کہ جس سے اس کی کمر ٹوٹ گئی کیونکہ امام (رح) نے ایران سے باہر، زیر تعلیم اسٹوڈٹس کو خط لکھا اور فرمایا:
آپ لوگ استعمار کے ہاتھوں ترکی اور سیاہکل کے لوگوں کی طرح دھوکہ نہ کھانا، اور ان کی سازشوں سے کبھی بھی غافل نہ ہونا۔"
امام خمینی(رح) نے یہ دیکھ لیا کہ اس سارے قصہ کے پیچھے ایک سازش ہے، لہذا آپ نے اس کا صحیح انداز میں دفاع کرکے ملت ایران کو ایک بہت بڑے خطرے سے نکال لیا اور نہضت اسلامی کو بھی صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھا۔