خداوند عالم نے جب دیکھا کہ صدر اول کے منافقین نے اسلام کی بنیاد کو متزلزل کردیا ہے اور صرف چند افراد کے علاوہ باقی سب منحرف ہوگئے ہیں تو حسین ابن علی (ع) کو تیار کیا اور جاں نثاری اور قربانی کے ذریعہ ملت کو بیدار کیا۔ ان کے عزاداروں کیلئے بہت بڑا ثواب مقرر کیا تاکہ وہ عوام کو بیدار رکھیں اور کربلا کی بنیاد کو فرسودہ نہ ہونے دیں کہ جس کی بنیاد ظلم وجور کا نام ونشان مٹا دینے اور لوگوں میں توحید وعدل کو رائج کرنے پر رکھی گئی ہے۔ اس صورت میں ضروری ہے کہ عزاداری کیلئے کہ جس کی بنیاد اس چیز پر رکھی گئی ہے۔ اس قدر ثواب مقرر کیا جائے کہ ہر دباؤ اور سختی کے باوجود اس سے دستبردار نہ ہوں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ لوگ حسین بن علی (ع) کی زحمتوں کو برق رفتاری سے برباد کردیتے اور ان کی زحمتوں کے برباد ہوتے ہی پیغمبر اسلام ؐ کی زحمتیں اور کوششیں جو انہوں نے شیعیت کی بنیاد ڈالنے کیلئے کی تھیں بالکل برباد ہوجاتیں ۔
پس فرضاً جو اجر، پروردگار عالم عطا فرماتا ہے وہ اس فائدہ کے مقابلہ میں ہے جو عمل سے حاصل ہوتا ہے اور اس عمل سے حاصل ہونے والا فائدہ دین حق اور بنیاد تشیّع کی بقا ہے اور دنیا والوں کی دنیا وآخرت کی سعادت اس سے وابستہ ہے اور اس زمانہ میں شیعوں کی حالت اور مخالفین علی ابن ابی طالب (ع) کی طرف سے ان کے ماننے والوں پر طرح طرح کی سختیوں اور مظالم کو دیکھتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ اس عمل کی قیمت مافوق تصور ہے اور خداوند عالم نے اس کیلئے اتنے ثواب اور اجرتیں رکھی ہیں کہ جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا ہوگا اور یہ کمال عدالت ہے۔
(کشف الاسرار، ص ۱۷۴)