ذی الحجۃ الحرام کے نویں دن کو یوم عرفہ کیوں کہا جاتا ہے؟

ذی الحجۃ الحرام کے نویں دن کو یوم عرفہ کیوں کہا جاتا ہے؟

ذی الحجۃ الحرام کے نویں دن کو یوم عرفہ کیوں کہا جاتا ہے؟

ذی الحجۃ الحرام کے نویں دن کو یوم عرفہ کیوں کہا جاتا ہے؟

حضرت آدم(ع) غروب آفتاب تک اسی طرح دعا کرتے رہے اللہ کے حضور تضرع و زاری و فریاد کرتے رہے اور آنسو بہاتے رہے اور جب سورج ڈوب گیا جبریل کے ہمراہ مشعر کی طرف روانہ ہوگئے اور پوری رات وہیں قیام فرمایا۔اور علٰی الصبح اٹھے اور پھر دعا میں مشغول ہوگئے یہاں تک کہ آپ کی توبہ قبول ہوگئی۔

ولایت پورٹل کی رپورٹ کے مطابق ذو الحجۃ الحرام کے نویں دن کو یوم عرفہ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ عظیم دن ہے جس میں حاجی اور بیت اللہ کے زائرین میدان عرفات میں جمع ہوکر راز و نیاز کرتے ہیں۔اس دن اللہ تعالٰی3 جگہوں اور 3 طرح لوگوں کو اپنے خاص لطف کی نگاہوں سے دیکھتا ہے:

1۔کربلا میں امام حسین(ع) کے زائرین کو.

2۔صحرائے عرفات میں راز و نیاز کرتے حجاج کو.

3۔دنیا کے کسی بھی کونے میں اس ہاتھ اٹھانے والے کا جو شکستہ دل کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول ہو۔

قارئین کرام اس دن کو عرفہ کہنے کے  متعدد اسباب بیان کئے جاتے ہیں جن میں سے معروف و مشہور یہ ہیں:

1۔اس دن کو عرفہ کہنے کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب جناب جبریل(ع) حضرت ابراہیم خلیل(ع) کو مناسک حج تعلیم دے رہے تھے تو جب عرفہ کے دن کے متعلق بتا چکے تو کہا:’’عرفتَ‘‘ اے نبی خدا کیا آپ کے یاد ہوگیا؟ حضرت خلیل اللہ(ع) نے جواب دیا: ہاں۔لہذا اسے اسی نام(یعنی عرفہ) سے پہچانے جانے لگا۔

2۔اس نام کے متعلق دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے چونکہ حجاج کرام آج کے دن(9 ذی الحجہ کو)میدان عرفات میں جاتے ہیں تو اللہ کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار و اعتراف کرتے اور اس کے حضور گریہ و زاری کرتے ہیں لہذا اسے’’عرفہ‘‘ کہا جاتا ہے۔

3۔بعض لغت کے ماہرین کی نظر میں’’عرف‘‘ کے ایک معنٰی صبر،تحمل،اور برداشت کرنے کے ہیں۔اور چونکہ اس میدان تک پہونچانا انسان کے لئے بڑی سعادت ہے کہ جو بہت ہی صبر اور تحمل و اذیتوں کے برداشت کرنے کے بعد ملتی ہے۔لہذا اس دن کو عرفہ کہا جاتا ہے۔

حضرت آدم(ع) اور عرفات کا میدان

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام جب بہشت سے اس زمین پر آگئے تو 40 دن تک ہر روز صبح میں کوہ صفا کی بلندی پر گریہ و زاری کے عالم میں  سجدے میں پڑے رہتے تھے۔ایک دن جبریل امین نازل ہوئے اور پوچھا: آدم کیوں رو رہے ہو؟

آدم(ع) نے کہا: میں کیسے نہ رؤوں جبکہ میں اللہ کے جوار سے اس دنیا میں آچکا ہوں۔

جبریل نے عرض کیا: آدم(ع) آپ اللہ کے حضور توبہ کیجئے اور اس کی طرف لوٹ جائیے۔

جناب آدم(ع) نے فرمایا: کیسے؟

چنانچہ 8 ذی الحجہ کے دن جبریل جناب آدم(ع) کو منٰی میں لے گئے کہ جہاں آپ ساری رات رہے اور جب صبح ہوئی تو عرفات کی جانب چلے گئے۔جب آدم(ع) مکہ سے نکل رہے تھے تو جناب جبریل نے انہیں احرام باندھنا اور لبیک کہنا سکھایا اور جب عرفہ کے دن عصر کا وقت ہوا تو آدم(ع) کو غسل کرنے کا حکم دیا اور نماز عصر پڑھنے کے بعد انہیں عرفات میں وقوف(ٹہرنے) کی دعوت دی اور کچھ وہ کلمات جو انہوں نے اللہ سے دریافت کئے تھے جناب آدم(ع) کو تعلیم فرمائے،وہ کلمات یہ تھے:’’سبحانك اللهم و بحمدك،لا اله الا انت،علمت و ظلمت نفسي،واعترفت بذنبي،اغفر لي انك انت الغفور الرحيم‘‘۔

يعني:اے اللہ تیری ذات منزہ ہے اور تیری ہی حمد ہے۔تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔میں جانتا ہوں کہ میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے۔اور میں اپنی خطا و لغزش کا اعتراف کرتا ہوں،بار الہا تو مجھے بخش دے چونکہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔

لہذا حضرت آدم(ع) غروب آفتاب تک اسی طرح دعا کرتے رہے اللہ کے حضور تضرع و زاری و فریاد کرتے رہے اور آنسو بہاتے رہے اور جب سورج ڈوب گیا جبریل کے ہمراہ مشعر کی طرف روانہ ہوگئے اور پوری رات وہیں قیام فرمایا۔اور علٰی الصبح اٹھے اور پھر دعا میں مشغول ہوگئے یہاں تک کہ آپ کی توبہ قبول ہوگئی۔

ای میل کریں