اس وقت ایک مسئلہ جس پر لیبرل عرفانی مکاتب کی جانب سے تنقید ہو رہی ہے مرتد کے بارے میں اسلامی سزاؤں کا مسئلہ ہے کہ یہ لوگ مرتد کو جسمانی سزا دینے کو انسانی کرامت کے خلاف اور فکر و عقیدہ کی ضد جانتے ہیں۔ بالخصوص مرتد سلمان رشدی کے بارے میں امام خمینی (رح) کے حکم کو انسانی کرامت کے خلاف جانتے ہیں اور اسے انسان کے بنیادی حقوق پر حملہ شمار کرتے ہیں۔ لہذا مرتد کے بارے میں اسلامی مجازات (سزاؤں) کو فقہ اور حقوق کے لحاظ سے تحقیق و بررسی کرنا اور اس کے انسانی کرامت سے رابطہ کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔
اس سلسلہ میں بنیادی اور اصلی سوال یہ ہے کہ مرتد کے بارے میں اسلامی سزائیں انسانی کرامت کے مخالف اور اس کی ضد ہیں؟ کیونکہ انسانی کرامت کا لازمہ فکر و عقیدہ کی آزادی ہے۔ ہم سب سے پہلے لفظ ارتداد کی لغوی تعریف کریں گے اس کے بعد اصل بحث پر آئیں گے۔
ارتداد لغت میں بازگشت اور رجوع کرنے کے ہیں۔ راغب اصفہانی مفردات میں لکھتے ہیں: "ارتداد" اور "ردہ" دونوں ہی رجوع اور بازگشت کے معنی میں ہے اور اس راہ کی طرف پلٹنے کے معنی میں جس کو وہ شخص بھے کر چکا ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ "ردہ"صرف کفر کے مورد میں استعمال ہوتا ہے اور "ارتداد" کفر و غیرہ دونوں میں استعمال ہوتا ہے۔ المصباح المنیر میں ذکر ہوا ہے کہ ارتداد کفر کی طرف پلٹنا ہے۔
ارتداد، فقہ کی روشنی میں
ارتداد فقہاء کی اصطلاح میں دین سے پھرجانے کو کہتے ہیں۔ مرحوم محقق حلی مرتد کی تعریف میں کہتے ہیں: مرتد اسے کہتے ہیں جو اسلام لانے کے بعد کافر ہوگیا ہو۔امام خمینی (رح) بھی تحریر الوسیلہ میں محقق حلی ہی کی طرح تعریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں: مرتد اسے کہتے ہیں جو اسلام سے خارج ہوگیا ہو اور کفر اختیار کرچکا ہو۔
اہلسنت کے ایک ماہر حقوق دان، مرتد کی اسی طرح تعریف کرتے ہیں: ارتداد اسلام سے پلٹ جانا یا اسلام سے جدا ہوجانا ہے۔ بعبارت دیگر مرتد مسلمان کا کافر ہونا ہے۔ اسلام کے ستونوں اور ارکان سے آگاہی کے بعد اور ان کی پابندی سے ثابت ہوا ہو، یہ اظہار واضح اور صریح گفتار اور کردار سے ہو جو کفر کے آشکار ہونے کا لازمہ ہو جیسے قرآن کی بے احترامی۔
مرتد کی تعریف میں شیعہ اور سنی دونوں ہی علماء اور دانشور ایک ہی نظریہ رکھتے ہیں۔ ایمان کے بعد کفر اختیار کرنا قرآن کی نص کی روشنی میں ارتداد شمار ہوتا ہے۔ مرتد کی اقسام اور اس کے معنی کی وضاحت کے بعد اختصار کے ساتھ عرض کروں کہ انسان دو طرح کی کرامت کا مالک ہے: ایک ذاتی اور دوسری اکتسابی۔ انسان کی اہمیت اور اندازہ لگانے کا معیار اس کی اکتسابی کرامت ہے۔ خداوند عالم نے انسان کو آگاہ اور انتخاب کرنے والی موجود بنا کر خلق کیا ہے اور راستہ اختیار کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہے تا کہ وہ اپنی بصیرت اور انتخاب سے کسی راستہ کو چنے اور اس کے انتخاب پر ہی فیصلہ ہوگا۔
اگر اس نے ترقی و کمال کی راہ اختیار کی اور انسانی فضائل کو حاصل کیا اور اپنی ذاتی کرامت کی روشنی میں اکتسابی کرامت کے حصول کی کوشش کی تو یہ انسان کرامت رکھتا ہے اور دینی کتابوں میں قابل تعریف ہے۔ لیکن اگر ہدایت کے راستہ سے ہٹ گیا اور شہوت و شیطان کی راہ اختیار کرے تو وہ کرامت سے خارج ہوگیا ہے اور ہلاکت و تباہی کے گڑھنے میں گرنے کا راستہ اپنالیا اور نتیجتا اسفل السافلین میں جا گرے اور اس قسم کے انسانوں نے اپنے سوء اختیار سے انسانی کرامت کو کھودیا ہے اور اب ان کے اندر کوئی کرامت نہیں رہ گئی ہے کہ سزا سے مانع ہو بلکہ اس طرح کے لوگوں نے خود کو انسانی کرامت سے کافی دور کرلیا ہے۔ لہذا معیار انسانی کرامت ہے۔ اگر کرامت پائی جارہی ہے تو یقینا اس قسم کی سزا اس سے منافات رکھتی ہے لیکن جب خداداد کرامت ہی نہ ہو تو اس انسان کی کوئی ارزش ہی نہیں ہے اور جب کوئی ارزش نہیں ہے تو کرامتوں کو پامال کرنے والے کو سزا دینا حکمت الہی کے عین مطابق ہے۔
یعنی انسان اپنی کرامت اور عزت نفس کی حفاظت کرے اگر چہ نفسانی اور شہوانی تقاضا کچھ اور ہو جو انسانی کرامت سے منافات رکھتا ہے۔
ارتداد صرف انسانی کرامت سے منافات ہی نہیں رکھتا بلکہ دینی مقدسات کی توہیں اور اس سے کھلواڑ بھی شمار ہوتا ہے۔ جو انسانی فرصتوں اور موقعیتوں سے سوء استفادہ کرتے ہوئے اپنی انسانی کرامت سے دور ہوجائے اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرے تو وہ سزا اور کیفر کا مستحق ہے کیونکہ وہ شخص اکتسابی اور ارزشی کرامت کا مالک ہوتا ہے جو اپنے عمل صالح کے ذریعہ اس مقام کا مستحق قرار پائے۔