تحریر: سید مہدی حسینی
علم و ایمان انسان کی نجات او ر کامیابی کا موجب اور خدا کے نزدیک اس کے مقام و مرتبہ کی بلندی کا سبب ہوتا ہے، کسی عالم کی اہمیت اور اس کا اعتبار اس کے علم و دانس کے اعتبار سے ہی ہوتا ہے۔ انسان کی الہی زندگی میں علم کی اس درجہ اہمیت اور اس کا کردار که پیغمبر اکرم (ص) کے بقول ایک فریضہ ہے۔
اسلام میں دین، عقل و خدا پر مبنی ہے اور اس کی آسمانی کتاب یعنی قرآن میں انسان کی ترقی اور اسے سنوارنے میں اس کی اہمیت اور کردار کی جانب خاص توجہ دیتی ہے۔ یہ اہمیت رسولخدا (ص) پر نازل ہونے والی پہلی آیتوں میں ظاہر ہے کہ ساری گفتگو ہی قلم اور تعلیم کے بارے میں ہے۔ علم کی کوئی حد اور انتہا نہیں ہوتی اور اسلام میں بھی اس کی کوئی حد نہیں ہے اسی لئے علم کے حصول میں افراط اور زیادہ طلبی ممدوح اور پسندیدہ امر ہے اور اسے حاصل کرنے کے لئے مکان کے لحاظ سے ثریا تک اور زمانہ کے لحاظ سے گہوارہ سے قبر تک کوشش کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اسی طرح اسلام نے انسان کے طلب علم کے لئے کوئی حد بیان نہیں کی ہے اور حکمت کو مومن کی گمشدہ چیز جانی ہے کہ اسے جس کی پاس بھی پاؤ لے لو۔
دنیا میں علم حاصل کرنے سے بلند ترین کوئی فضیلت نہیں ہے کیونکہ انسان کی حقیقی حیات اور سعادت علم کی وجہ سے ہے اور انسان کی بلندی اور اس کی انسانی شرافت اسی علم سے وابستہ ہوتی ہے۔ ڈینگ اور بیہودہ گوئی نہیں ہوگی اگر کہوں کہ علم، عبادت سے بھی افضل ہے، کیونکہ عابد انسان کی صلاحیت صرف اور صرف اپنی نجات کی راہ میں منحصر ہوتی ہے اور صرف خود کو نجات دیتا هے لیکن عالم شخص ایسا مصلح ہے جو عالم کو جہالت اور تاریکیوں سے نکال کر ہدایت اور نور کی طرف لاتا ہے اور خود بھی نجات پاتا ہے۔
اس بات کی تاکید میں بے شمار روایت ہیں کہ مندرجہ ذیل رسولخدا(ص) اور حضرت علی (ع) کی صریح روایات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے:
رسولخدا(ص) فرماتے ہیں:
عالم کی عابد پر فضیلت 14/ویں کے چاند کی دیگر ستاروں پر فضیلت اور برتری کی طرح ہے۔ دوسری حدیث میں فرماتے ہیں:
میں نے جبرئیل سے سوال کیا: خدا کے نزدیک علماء زیادہ عزت رکھتے ہیں یا شہداء؟ اس پر جبرئیل نے فرمایا: خدا کے نزدیک ایک عالم ہزار شہید سے زیادہ مکرم ہے۔
امام علی (ع) فرماتے ہیں:
میں مسجد پیغمبر (ص) میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ابوذر آگئے اور سوال کرلیا یا رسول اللہ! آپ کے نزدیک عابد کی تشییع جنازہ زیادہ اہمیت رکھتی ہے یا عالم کی خدمت میں ہونا؟ رسول خدا (ص) نے فرمایا: علم کی بزم میں چند لحظہ کے لئے حاضر ہونا ہزار شہید کے جنازہ میں شرکت کرنے سے افضل ہے۔
علم کی اہمیت قرآن و روایات نیز دنیا کی دانشوروں اور صاحبان نظر کے نزدیک ایک عقلی ضروری اور مسلم امر ہے جس سے کوئی منصف مزاج اور عاقل انسان انکار نہیں کرسکتا یہاں تک کہ اصطلاحی علوم کے علاوہ دنیا میں جو جاہل ہیں مگر ایک دوسرے سے زیادہ جانکاری رکھتے ہیں وہ بھی اپنی اس معلومات اور جانکاری کی وجہ اور طرز تکلم اور سخن سے برتری رکھتے ہیں۔
مکتب اسلام میں حقیقی علماء کے اوصاف کے بارے میں قرآن کریم کے علاوہ روایات میں بھی بے شمار مطالب دکھائی دیتے ہیں۔ حضرت علی (ع) فرماتے ہیں:
عالم کی تین علامت ہے: علم، بردباری اور خاموشی۔ اور اپنے فرزند ارجمند کی وصیت میں فرماتی ہیں:
علم کی تین علامت ہے: خدا کی شناخت، اس کی معرفت جسے وہ دوست رکھتا ہے اور جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔