غیبت

غیبت کرنے والوں کے ساتھ امام (رح) کے سخت رویہ

آپ نے ناراض ہو کر فرمایا: "یہاں پر کسی کے بارے میں کوئی بات نہ کرو"

غیبت کسی برادر مومن کے پیٹھ پیچھے اس کے اندر موجود عیوب کو بیان کرنا اور اس کے نقائص کو ظاہر کرنا ہے جس سے وہ راضی نہ ہو۔ کون انسان ایسا ہے جو اپنے عیوب کے بیان کرنے پر کسی سے راضی ہوگا۔ لیکن ہم انسان اپنے جذبات اور دلی کدورتوں کی تسکین کے لئے اس کی اصلاح کرنے کے بجائے اس کے عیوب اور نقائص کو بیان کرکے بظاہر اپنے دل کو خوش کرتے اور سکون دیتے ہیں اور اسے دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا کرتے اور اس کے اعتبار کو گھٹاتے ہیں۔ اس کی اہمیت اور حیثیت کو کم کرتے ، اس کی آبروریزی کرتے اور خوش ہوتے ہیں، اس سے غافل کہ یہ گناہ کبیرہ اور حق الناس ہے۔

حضرت امام خمینی (رح) اپنی پوری زندگی جیسا کہ آپ کے دوست، احباب اور ساتھ رہنے والے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے کسی کی غیبت تو کرتے نہیں تھے بلکہ دوسروں کی غیبت کو سنتے بھی نہیں تھے اور غیبت کرنے والوں کو اس عظیم گناہ کے ارتکاب سے منع فرماتے تھے اور شدت کے ساتھ روکتے تھے۔

ایک دن ایک برادر مومن، امام (رح) کی خدمت میں پہونچا اور اس نے ایک مسئلہ ذکر کیا اور اپنی گفتگو کے دوران کسی شخص کے بارے میں کوئی بات کہی تو آپ نے ناراض ہو کر فرمایا: "یہاں پر کسی کے بارے میں کوئی بات نہ کرو"

غیبت کرنے والوں سے امام (رح) کے سخت رویہ کا دوسرا نمونہ خانم زہرا مصطفوی سے نقل ہوا ہے۔ انہوں نے فرمایا: "ہم سب کمرہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارے رشتہ داروں میں سے ایک خاتون نے آہستہ مجھ سے کہا کہ فلاں شخص داخل ہوا تو اس نے تواضع نهیں کیا کہ اچانک دیکھا کہ حضرت امام (رح) نے ناراضگی سے ان کی طرف رخ کیا اور کہا: آپ نہیں جانتی کہ خدا یہاں ہے۔ اس وقت یہاں کی فضا حرام اور یہاں پر بیٹھنا حرام ہے۔ آپ اس درجہ منقلب ہوئے کہ میں ان کے حال سے پریشان ہوئی۔ خود اس خاتون نے کہا: میں نے تو کوئی بات نہیں کہی ہے میں نے صرف یہ کہا ہے کہ میرے سامنے تواضع نہیں کیا ہے۔ حضرت امام (رح) نے کہا: آپ نہیں جانتی اور بھول جائیں گی لیکن خدا کو یاد ہے۔ یہ غیبت ہے۔ امام (رح) کی اہلیہ فرماتی ہیں: میں نے امام کے ساتھ 60/ سال کی پوری عمر میں ایک بار بھی نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی کی غیبت کی ہو۔

امام خمینی (رح) غیبت، تہمت اور گناہ کی بزم میں کبھی نہیں بیٹھتے تھے اور یہ خصوصیات آپ کے اندر جوانی سے پائے جاتے تھے بلکہ آپ غیبت کرنے سے شدت کے ساتھ منع کرتے تھے۔ یہ امام کی خاص خصوصیات تھے۔ امام کے ایک چاہنے والے اس سلسلہ میں کہتے ہیں:

طلاب اور محصلین نے اپنے روز و شب کا کچھ حصہ امام (کے گھر) کے باہر بحث و مباحثہ سے مخصوص کر رکھا تھا اور کبھی کبھی بعض علماء پر تنقید ہوا کرتی تھی اور یہ لوگ اس بات سے بھی گلہ مند تھے کہ امام مرجعیت کے لئے قدم کیوں نہیں اٹھاتے؟ بلکہ کنارہ کشی کرتے ہیں۔ ایک دن مرحوم حاج سید مصطفی خمینی پیغام لائے کہ آقا نے فرمایا ہے: میں نے سنا ہے کہ یہاں پر بعض افراد علماء کی غیبت اور ان کے خلاف جسارت کرتے ہیں۔ میں اس جگہ پر کسی کی غیبت کرنے اور توہیں کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور میں اس فعل سے راضی نہیں ہوں۔ غیبت کی ممانعت پر قرآن اور احادیث میں تاکید ہوئی ہے اور قرآن میں اسے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسی طرح احادیث میں بھی اس سے اجتناب کرنے کی تا کید کی گئی ہے۔ دوستو اور عزیزو! ہم لوگوں کی غیبت کرنے، آبروریزی کرنے ان کی حرمت پامل کرنے کے بجائے اسے اس کے برے فعل سے امر و نہی کے مراتب کا لحاظ کرتے ہوئے نصیحت کریں، اسے اس بات سے روکیں اور ایک سچے اور مخلص دوست، ساتھی اور برادر ایمانی کی طرح اسے منع کریں۔ ورنہ اگر ہم منع نہیں کرتے تو منع نہ کرنے کا ایک گناہ ہوگا اور اس کے بعد اس گناہ کے کرنے والے کے عیوب بیان کرنے پر دوسرا گناہ ہوگا لہذا ہم سب اپنے اپنے حدود اور دائرہ میں رہ کر ایک دوسرے کو برے فعل سے روکنے کی کوشش کریں اور خود بھی برائی سے بچیں۔ یہ گناہ کے ساتھ ساتھ گناہ فاش کرنے کی سزا بھی ہے اور جب تک وہ معاف نہ کرے خدا بای معاف نہیں کرے گا۔ ہمیں حواس جمع رہنا چاہیئے اور آنکھ  و کان کھلا رکھنا چاہیئے اور یہ سوچنا چاہیئے کہ ہم کیا کررہے ہیں اور کیوں کررہی ہیں، صرف جذبات کی تسلی اور کدورتوں کے نکالنے کا سبب نہیں سمجھنا چاہیئے۔ اگر ہم نے ایسا کربھی دیا تو اس سے معافی مانگ کر دوسروں کے لئے درس عبرت بنیں۔ ایک یہ کہ کسی کی غیبت نہ کریں اور اگر کرلیا تو معافی مانگ لے اس سے اس امر کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

ای میل کریں