انقلابِ ایراں نے
کارگاہِ دوراں میں
سب پرانے پیمانے
سوچ کے بدل ڈالے
اور اس دھماکے سے
ضربِ فکرِ نو سے جو
لامحالہ پیدا ہوا
بل کے رہ گئے سارے
مطلق العنان آمِر
سرکشاں مُستکبر
غاصبانِ یغماگر
ہے اسی کا سر تا سر
یہ تفضل و احساں
مُنکشف ہوئی پھر سے
برملا، علی الاِعلاں
ذہنِ عصرِ حاضر پر
یہ صداقتِ عظمی
یہ حقیقتِ کُبری
یہ شہادتِ اُولی
شمع حق کے پروانے
زندگی کے دیوانے
موت سے نہیں ڈرتے
وہ شجاع مردِ نر
شہسوار، جوشن بر
رعد و تُندر و صرصر
جان کو ہتھیلی پر رکھ کے جو رجز پڑھتے
سیل کی طرح بڑھتے
ابر کی طرح چڑھتے
صف بہ صف صدا کرتے
لا الہ کا دم بھرتے
آتے ہیں سرِ میدان
وہ کبھی نہیں ہٹتے
انقلابِ ایراں کے
باطنی تصرف سے ڈھل گئے حقائق میں
بن گئے اچانک وہ
جیتے جاگتے پیکر
گرتے تھے گماں جن کو
لوگ محض افسانے
مسجدیں ابھر آئیں
ڈھ گئے صنم خانے
انقلاب ایراں نے
جد و جہد سے اپنی
اپنے عزم و ایماں سے
اس قدیم کے سچ کو
اعتبارِ نو بخشا:
ہے عوام کی طاقت
ان کے خشم کا ریلا
ان کے قہر کا دھارا
بے پناہ اس درجہ
کوئی قہرماں جس کی
زد سے بچ نهیں سکتا
ذلتوں کے مار ے جب
مارے غصہ و غم کے
انتقام کو اُٹھیں
اس تمام ڈھانچے کو
توڑ پھوڑ کر رکھ دیں
قوتِ نم ان کی
جس نے روک رکھی تھی!
انقلاب ایران نے
لکھ کے سرخی خوں سے
پرچمِ پر افشاں پر
بہ حدیثِ خوش مضموں سر
سر مئی فضاؤں میں
برق وار لہرائی:
"الکتاب کی رو سے
اُسوۀ پیمبر نے
شرح جس کی فرمائی
اور ملتِ بیضا
کے سیاسی جزر و مد
نے گواہی جس پر دی
دین و بادشاہی کی
ہوسکے نہ یکجائی
مذہب و ملوکیت
میں نہیں سرِ مُو بھی
قدرِ مشترک کوئی!
دینِ مصطفائی کا
ہے مزاج شُورائی
اس کی رُوحِ عادل کے
سر بسر مُنافی ہے
خُود بوئے دارائی
مطلق العنانی کا
جب بھی اس پہ دور آیا
نکبت و نحوست کی
ضیق و خوق و دہشت کی
قحطِ حرف و حکمت کی
تہ بہ تہ گھٹا چھائی!
انقلابِ ایراں کی
دین ہے یہی خالد
بہ حقیقتِ کہنہ
خونِ دل کے صیقل سے
اس نے پھر نمایاں کی
اور اپنے لو دیتے
آتشیں تنفس سے
جبر کے اندھیروں میں
عدلِ اجتماعی کی
شمع پار فروزاں کی!
جب بھی آمریت نے
جال اس پہ پھیلایا
اس کی تازہ کاری پر
بانجھ پن کی لہر آئی
اس کے بہتے پانی پر
(جال سست پڑنے سے)
حبس کی جمی کائی
اور اس کے مطلع پر