آپ کا اسم گرامی اور نام نامی سید روح اللہ مصطفوی اور لقب امام خمینی ہے۔ آپ کے والدعلامہ آیت اللہ مرحوم سید مصطفی موسوی، مرحوم آیت اللہ العظمی میرازئے شیرازی کے ہم عصر تھے۔ آپ اسلامی انقلاب ایران کے رہبر اور جمہوری اسلامی ایران کے بانی ہیں۔ آپ خمین شہر کے مشہور و معروف علماء کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کا خاندانی امتیاز حق و صداقت کی آواز بلند کرنا اور مظلوموں کا دفاع کرنا اور وقت کے ظالم و جابر، طاغوت روزگار اور عصر کے درندہ صفت اور عفریت مزاج ظالموں سے مقابلہ کرنا اور ٹکر لینا ہے۔ آگ کا گھرانا ہمیشہ راہ حق کا مجاہد اور مدافع رہا ہے۔
آپ کی ولادت اسی تاریخ کو ہوئی جس دن رسولخدا (ص) کی ناز پروردہ بیٹی فاطمہ زہراء (س) کی ولادت ہوئی ہے یعنی ۲۰/ جمادی الثانیہ سن 1320 ھ ق مطابق 24/ ستمبر 1902 ء کو ہوئی ہے اور 14/ خرداد 1357ش کو داعی اجل کو لبیک کہکر دار فانی سے دار باقی اور جاوید کی جانب کوچ کرگئے۔
آپ نے خمین میں ابتدائی تعلیمات حاصل کیں اس کے بعد اراک گئے۔ معانی و بیان میرزا محمد علی ادیب سے، سطح کے دروس کی تکمیل آیت اللہ سید محمد تقی خوانساری اور آیت اللہ سید علی یثربی کاشانی سے اور فقہ و اصول کے دروس حوزہ علمیہ کے زعیم حاج شیخ عبدالکریم حائری سےپڑھا اور اس کی بعد آپ کے جد و جہد اور لگن کے جذبہ نے صرف اصول و فقہ کے دروس پر اکتفاء نہیں کی بلکہ آپ نے دیگر علمی موضوعات کی جانب بھی شوق اور رغبت کے ساتھ توجہ کی۔
۴/ جون آپ کی برسی کی تاریخ ہے لہذا اس کی مناسبت سے آپ کی حیات اور خدمات پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔
امام خمینی (رح) عہد طفولیت ہی سے حق گوئی، حق پرستی کا جذبہ رکھتے اور مجاہدانہ کردار کے مالک تھے اور وقت کے ظالم و ستمگر حکام و سلاطین کی جانب سے ایرانی عوام پر ہونے والے مظالم اور مصائب پر رنجیدہ اور غمگین رہتے تھے اور ہمیشہ ظلم و جور، حیوانیت، درندگی، طاغوتیت اور تشدد و بربریت کے خاتمہ کا خواب دیکھتے رہتے تھے اور اپنے انسانی اور اسلامی فرائض پر عمل کرتے ہوئے عوام کو بیدار کرتے رہتے تھے اور حق کی آواز بلند کرتے تھے ۔ لیکن اس وقت کھل کر پہلوی حکومتکی سیاسی میدان میں مخالفت نہیں کی تھی۔ ہاں، جب آیت اللہ بروجردی اعلی اللہ مقامہ کا انتقال ہوگیا تو آپ نے شاہی پہلوی حکومت کے درندہ مزاج اور عفریت صفت اور دیو طبیعت ظالموں کے خلاف سیاسی مخالف کی اور اپنے دینی فرائض کو ادا کرنے لگے۔
۱۵/ خرداد کے قیام میں آپ کو گرفتار کردیا گیا اور گرفتار کرکے قم سے تہران اور وہاں سے جھیل بھیج دیا گیا۔ پھر کچھ مدت بعد رہا ہو کر دوبارہ قم مقدسہ واپس آئے اور کیپٹالیزم قانون کی منظوری کےخلاف صدائے احتجاج بلند کردی اور قم کی مسجد اعظم میں اس قانون کی منظوری پر کھل کر زبر دست مخالفت کی اور اپنی شعلہ بیان تقریر سے شاہی حکومت کا پردہ فاش کردیا۔
اس مخالفت اور حکومت پر تنقید کے بعد آپ کو دوبارہ گرفتار کرکے ترکیہ جلاوطن کردیا جاتا اور وہاں سے عراق جلاوطنی کی زندگی گذارنے پر مجبور کیا جاتاہے۔ امام خمینی (رح) نے اپنے عراق کے قیام کے دوران پہلوی حکومت کے خلاف جد و جہد جاری رکھی اور مقابلہ اور مجاہدت کرتے رہے۔ پھر پہلوی حکومت نے عراق کی بعثی حکومت کی موافقت سے آپ کو عراق سے پیرس روانہ کردیا گیا۔ پیرس جانے امام کے انقلاب اور مقابلہ میں مزید جان پڑگئی۔ پیرس میں امام خمینی (رح) کے قیام کرنے اور مغربی میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں آپ کے افکار و خیالات کے نشر ہونے سے پہلوی حکومت کی گرفت کمزور پڑنے لگی اور رفتہ رفتہ پردہ خفا میں جانے لگی اور اس کی حقیقت کھل کر دنیا کے سامنے آنے لگی۔
آپ کی بصیرت اور دو راندیشی سے ایرانی عوام کا اسلامی انقلاب شاہ اور اس کے حکومتی اور شاہی گھرانے کے ایران سے فرار کرنے کامیابی اور کارمرانی کی معراج کو پہونچا۔ ۱۲/ بہمن کو پاک دل، نیک صفت اور عظیم الشان رہبری کی پیرس سے واپسی اور قریب سے انقلاب کی رہبری کرنے کی وجہ سے مورخہ ۲۲/ بہمن 1357ش کامیابی کی صبح نمودار ہوئی اور ایرانی عوام اپنے اسلامی اور انسانی اقدار کی مالک ہوئی۔
شاہی حکومت کے خاتمہ اور ۵۷/ سالہ پہلوی سلطنت کے زوال سے امام خمینی (رح) نے عوام کی اکثریت سے جمہوری اسلامی ایران کی بنیاد رکھی۔ امام خمینی (رح) ۲۲/بہمن 57 سے ۱۴/ خرداد 68ش تک انقلاب کی رہبری کی اور لوگوں کی ہدایت کرتے رہے نیز انقلاب اور ملک کو خطرناک حوادث، باطل کی گوناگوں سازشوں، مکاریوں، چالوں اور فریب سے بچایا اور عراق کی ۸/ سالہ زبردستی کی ہوئی جنگ کے پرخطر دور میں بھی رہبری کا بوجھ اٹھایا۔
امام خمینی (رح) نے اپنے اغراض و مقاصد، آرمانوں، خوابوں اور جو کچھ بھی کرنا چاہتے سب ابلاغ کردیا اور لوگوں کو بتادیا اورعملی میدان میں انہی اغراض و مقاصد کو عملی جامہ پہنانے میں اپنی ساری ہستی لٹادی اور لٹا کر ۱۴/ خرداد 68ش کو اپنے خدائے عزیز کے لئے خود کو آمادہ کرلیا جس کی رضاو خوشنودی کے لئے پوری عمر صرف کردی تھی۔ آپ نے ذات وحدہ لا شریک لہ کے سوا کسی کے سامنے سر نہیں جھکایا اور نہ ہی کبھی باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور اگر آپ کی آنکھوں سے آنسو نکلے تو اسی ذات باری کے لئے نلکے اور وہ گھڑی آگئی جب آپ کی روح فرسا رحلت نے چاہنے والوں، شیدائیوں، ماننے والوں اور آپ کی اطاعت کرنے والوں کو بیقرار کردیا۔ اور آپ بروز هفتہ بوقت ۱۰/ بجکر ۲۰/ منٹ پر دل کی حرکت بند ہوجانے پر وجہ سے اپنے تمام شیدائیوں اور فدائیوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر چل بسے۔
بے نظیر انسان اور ایسی بے مثال شخصیت کے دنیا سے چلے جانے پر ایرانی عوام گریہ و نالہ کیوں نہ کرے، کیونکہ اس ہستی نے انسانیت کی پامال شدہ عزت و آبرو واپس کی۔ اس کی کھوئی ہوئی شان و شوکت لوٹی، اس ذات نے امریکہ اور مغربی ڈاکووں کو اپنی سرزمین سے نکال کر باہر کیا۔ اسلام کو حیات نو بخشی، مسلمانوں کی عظمت دوبالا کی، جمہوری اسلامی کی بنیاد رکھی، دنیا کی تمام شیطانی اور جہنمی طاقتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، دسیوں سال تک باطل اور مکار دنیا داروں کی نت نئی سازشوں کا آہنی دیوار بن کر مقابلہ کیا اور داخلی، خارجی بغاوتوں، فتنہ و فساد اور ہرج و مرج سے لڑتے رہے اور ایسی ناپاک باطل طاقتوں سے مقابلہ کیا جن کی مشرق و مغرب دونوں طاقتیں حمایت کررہی تھیں، لیکن خمینی بت شکن کی پیشانی پر بل نہ آیا۔
خدا آپ کے بلند سے بلند تر کرے اور ہم سب کو ان کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔