واقعہ طبس

واقعہ طبس

طبس میں شکست کے بعد امریکا، ایران میں جنگ کے بغیر شکست، اس ملک کے لئے ناقابل برداشت تھی

طبس میں شکست کے بعد امریکا ،  ایران میں جنگ کے بغیر شکست،  اس ملک کے لئے ناقابل برداشت تھی  جو ہمیشہ اپنے اقتدار ، فوجی طاقت اور ایجنسی پر ناز کرتا تھا اسی وجہ سے ۱۳۵۹ ہجری شمسی ماہ خرداد  کی پہلی تاریخ کو امریکا اور اس کے اتحادی یورپی ممالک نے ایران پر اقتصادی پابندی لگا دی، یہ ایک ایسا قدم تھا جس کے نتیجہ میں ۱۳۵۹ ہجری شمسی ماہ  تیرکی ۱۴ویں تاریخ  کو بیرونی ممالک میں ایرانی رقومات وغیرہ پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔

ایک ہفتہ کے بعد یعنی ماہ تیر کی ۲۱ ویں تاریخ کو نوژہ نامی فوجی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اسے ناکام بنا دیا گیا یاد رہے کہ نوژہ نامی فوجی حکومت ایک ایسی تحریک کا نام ہے جو ایران میں جمہوری اسلامی قائم ہونے کے کچھ عرصہ بعدکچھ  شہنشاہی افسروں کی جانب سے چلائی گئی جس میں شاپور بختیار کی سر براہی میں اسلامی جمہوری ایران کی نابودی کا خواب دیکھا جارہاتھا۔ اس واقعہ کے بعد کچھ  گروہوں کی شکل میں امریکی جاسوس  ملک کے مختلف علاقوں میں لے جائے گئے تا کہ ان تک کسی کی دسترسی امکان پذیر نہ ہوپائے،  نیز انہیں چھ مہینے تک امام خمینی ؒ کے پیروکار دانشوروں کے حوالے کیا گیا۔

طبس کے امام جمعہ کا بیان

 جب بھی امریکا ایران میں داخل ہونے کی کوشش کرے گا واقعۂ  طبس کی طرح اسے شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ طبس کے امام جمعہ جناب حجۃ الاسلام  والمسلمین سید ابراہیم مہاجریان ،  ان افراد میں سے ہیں جو واقعۂ طبس میں خود وہاں موجود تھے  وہ کہتے ہیں: امریکا کی شرمناک شکست  کے  دن میں خود وہاں موجود تھا   اور میں  امریکا کی شکست  کے فوراً بعد وہاں پہنچا جہاں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا  اور امریکیوں کی ذلت و خواری کا میں نے قریب سے مشاہدہ کیا۔

وہ اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ " جنازے خاک پر پڑے ہوئے تھے اور جہاز و ہیلی کیپٹرز کے اجزاء  وہاں  بکھرے پڑے تھے جو اپنے زمانے کے پیشرفتہ جہاز و ہیلی کیپٹرز تھے"۔ وہ  اس واقعہ کے بعد  طبس کے لوگوں کی خوشحالی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : امریکیوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ صحرائے طبس میں جس خدا نے انہیں ذلت کا منہ دکھایا وہ ہر جگہ اور ہر مقام پر ایران کے ساتھ ہے جب کہ بہت سے افراد منجملہ بنی صدر اس وقت امریکا کی حمایت کررہے تھے لہذا جب بھی امریکا  اسلامی نظام  اور ایران کی مقدس سرزمین میں داخل ہونے کی کوشش کرے گا  صحرائے طبس  کے واقعہ کی طرح اسے شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جناب مہاجریان کہتے ہیں: ملک کے عہدیداروں اور عوام الناس کو اس عظیم الشان واقعہ  اور اس کی کامیابی کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے نیز ضروری ہے  کہ ہر سال اس واقعہ کی تاریخ کے موقع پر شہر طبس میں امریکا کی شکست  کی جگہ لوگوں کے درمیان اس کے مطابق   مختلف پروگرام پیش کئے جائیں۔

انہوں نے بیان کیا کہ کچھ سال پہلے ہمیں اطلاع ملی کہ امریکا کی شکست کی جگہ یعنی  سرزمین مقدس طبس کے کچھ حصہ کو اس کی مالکیت سے نکال کر اردکان نامی شہر کی مالکیت میں شمار کیا گیا ہے جبکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کی شکست طبس میں واقع ہوئی  اور مجھے جب یہ اطلاع ملی تو میں نے نماز جمعہ میں اس خبرپر اعتراض کیا جس کے نتیجہ میں لوگوں کی حمایت اور وقت کے تحصیلدار کی کوشش کے ذریعہ اس موضوع  کی جانچ کی گئی۔

 وہ کہتے ہیں: البتہ تمام قسم کی جانچ پڑتال کے بعد  ابھی بھی کوئی اطمینان نہیں کہ  طبس کی غصب شدہ سرزمین قانونی اعتبار سے شہر اردکان  کی مالکیت سے نکالی گئی ہے یا نہیں۔

وہ اہل طبس کے لئے اس سرزمین  کی اہمیت  کے بارے  میں کہتے ہیں: چنانچہ یہ علاقہ اگر طبس سے ملحق کیا گیا ہے نیز قانونی اعتبار سے بھی  اگر شہر طبس کا حصہ قرار دیا گیا ہے تو  عہدیداروں سے گزارش ہے کہ اس کے کاغذات و اسناد کو پیش کیا جائے۔

طبس کے امام جمعہ نے ریاست یزد کے عہدیداروں سے مطالبہ کیا کہ یزد و طبس  میں  صدر مملکت  اور ان کے ساتھ دیگر اراکین  کے پہلے  سفر میں ابابیل یا طبس میں عبرت نامی  میوزیم تعمیر کرنے کے سلسلہ میں جو فیصلہ کیا گیا ہے نیز جس کے بارے میں زمین کو بھی مخصوص کردیا گیا ہے ، اسے جلد از جلد عملی جامہ پہنایا جائے۔

 واقعۂ طبس  کا اکیلا شہید، محمد منتظر قائم

محمد علی صمدی کی جانب سے تالیف کی جانے والی پیمان عشق نامی کتاب  میں بیان کیا گیا ہے کہ  محمد منتظر قائم کویرنامی علاقہ  میں پیدا ہوئے ان کے والد  کانام شیخ علی اکبر تھا  جونہایت شجاع و  بہادر آدمی تھے اور ان کا شمار واقعۂ مسجد  گوہرشاد( بد حجابی و بے پردگی  کے خلاف  اعتراض کرنے کی وجہ سے اہل مشہد کا مسجد گوہر شاد  میں قتل عام ) میں شرکت کرنے والوں میں سے ہوتا ہے، محمد منتظر ایسے باپ کے بیٹے ہیں جنہوں نے شجاعت اپنے والد سے وراثت  میں پائی۔ انہوں نے  یزد میں  ایک دینی انجمن کے تحت امام خمینیؒ کی حکومت اسلامی نامی  کتاب کے موضوعات کی بررسی کی۔  فوجی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد  انہیں  امر بالعروف اور نہی عن المنکر کی غرض سے  سندج سے دامغان  کے  ژاندارمری  نامی علاقہ میں  بھیجا گیا اور وہاں انہوں نے علنی طور پر حکومت  کے خلاف علم بلند کیا  اس کے بعد انہوں نے  اسلامی حکومت قائم کرنے  اور نظام شہنشاہی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے فلاح نامی ایک جہادی تنظیم تیار کی لیکن  اس کے نتیجہ میں انہیں ساواکیوں کی جانب سے گرفتار کر لیا گیا  اورانہیں  بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ  ایسے حالات میں ان کی داستان شجاعت  کافی دلچسپ ہے گرفتاری کے بعد جب انہیں آزادی ملی تو  انہوں نے دوبارہ شہنشاہی حکومت کے خاتمہ کے لئےنئے انداز میں  سر گرمیاں شروع کر دیں۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد وہ سپاہ پاسداران کے رکن بن گئے اور سپاہ یزدتیار کر کے اس کی کمانڈ اپنی ہاتھ میں رکھی۔ آخر کار واقعۂ  طبس میں محمد منتظر قائم بنی صدر  کے حکم پرفوج کی جانب  سے کی جانے والی بمباری کے  نتیجہ میں منزل شہادت پر فائز ہوگئے۔       

ای میل کریں