آنا نیوز کے سیاسی شعبہ کی رپورٹ کے مطابق: امام خمینی(رح)نے متعدد بار کہا کہ اسرائیل توسیع کی لالچ رکھتا ہے اور موجودہ سرحدوں کا پائبند نہیں اور اسرائیل کا اپنے اس ہدف سے ہر قسم کا انکا یا اس پردہ ڈالنا صرف جہان اسلام کے عمومی افکار کو دھوکہ دینا ہے اور سیاست سے فائدہ اُٹھاتے ہوے اپنے ہدف کو مکمل کرنے کے لئے قدم بڑھا تا ہے۔
جب شاہ کے ظالم نظام کی طاقت اونچائی پر تھی اس وقت امام خمینی (رح) نے صہیونی شاہ اور اسرائیل کے مخفی اور آشکار تعلقات سے پردہ ہٹایا تھا اور بڑی سنجیدگی سے اسرائیل جیسے خطرے کا مقابلہ کر رہے تھے کے دور میں رضا شاہ ایران اسرائیل کے جاسوسوں کی سر گرمیوں اور عرب علاقوں کا کنٹرول کرنے کا مرکز بن چکا تھا۔
شاہ اور اسرائیل کے مخفی اور واضح تعلقات کو ظاہر کیا اور صہیونی شاہ کی مسلمانوں کے مشترک دشمن کی مدد کر نے کی مخالفت امام خمینی(رح) کی تحریک کے مقاصد میں سے ایک تھا اس کے بارے میں خود امام خمینی(رح) فرماتے ہیں:
جن چیزوں کی وجہ سے ہم نے شاہ کے مقابلے میں تحریک شروع کی اُن میں سے ایک شاہ کی اسرائیل کی مدد کرنا ہے میں نے ہمیشہ کہا ہیکہ جب سے اسرائیل بنا ہے شاہ اُس کی مدد کر رہا ہے اور جب اسرائیل اور مسلمانوں کے درمیان جنگ اوج پر تھی اس وقت بھی شاہ نے مسلمانوں کے تیل کو غصب کر کے اسرائیل کی مدد کر رہا تھا اور اس کا یہ عمل انھیں اسباب میں سے تھا جسکی وجہ میں نے شاہ کے خلاف تحریک چلائی۔(صحیفہ امام،ج 5، ص178)
وہ جہان اسلامی کی داخلی مشکلات جیسے کہ کمزوری اور بے بسی یا بعض اسلامی ممالک کی وابستگی یا بعض ممالک مکمل طور پر موقوف تھے لھذا وہ ہمیشہ جہان اسلامی کی بیداری اور علم جو بنیادی عقائد اور امت کے ایمانی اور ثقافتی مشترکات میں سے ہے اور ہر قسم کے مذہبی اختلاف سے پرہیز کرنے کی تاکید کرتے تھے اور ریاستی ممالک کے راہنماوں کو اس عمل کی پیروی کرنے کی تاکید کرتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ حکومتیں جب تک اس شعور و مسلمانوں کے عمومی مطالبہ کے ہم پلہ و ہمراہ رہیں تو تب تک ہدایت ،رہبری و ذمہ داری کی عہدیدار رہیں گی ورنہ ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کرنا چاہئے جو ایرانی قوم نے اپنے بادشاہ کے ساتھ کیا۔
امریکہ اور اسرائیل کے خلاف تیل کی پابندی کا حربہ استعمال کرنا ضروری
عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان جنگوں بالخصوص جنگِ رمضان کی شکست کے بعد عربوں کے درمیان سازشوں کا میدان ہموار گیا تھا تو اس وقت امام خمینی(رح) اسرائیل اور اس کے حامیوں کے خلاف تیل کی پابندی کا حربہ استعمال کرتے ہوئے مقابلہ جاری رکھنے کی تاکیدکرتے تھے۔
امام(رح) نے ۱۶/۸/۱۳۵۲ ہجری شمسی کو ایک پیغام میں اسلامی اقوام و حکومتوں کو جنگِ رمضان کی مناسبت سے مخاطب قرار دیتے ہوئے لکھا:
" جن اسلامی ممالک میں تیل کے ذخائراور دیگر ذرائع موجود ہیں وہ ان سے اسرائیل اور دوسری ظالمانہ حکومتوں کے خلاف حربہ کے عنوان سے استفادہ کرتے ہوئے ان ممالک کو تیل بیچنے سے پرہیز انکار کردیں جو اسرائیل کے حامی ہیں۔ ( صحیفۂ امام، ج۳، ص۲)
فلسطین کی آزادی اسلامی شناخت کی مرہون منت
اصولی مواقف اختیارکرنے اور اسرائیل کا مقابلہ کرنے کا لازمہ یہ ہے کہ لوگ آگہی کے ضمن میں ہوشیاری سے کام لیں اور وہ اپنے حکمرانوں پر اتنا بھروسہ رکھیں جتنا وہ ان کی ہمکاری و ہمراہی کرتے ہیں لیکن اکثر اسلامی ممالک پر ظلم و استکبار کی حد یہ تھی کہ لوگ حکومت کی حامی نہیں تھے۔
اس حقیقت کی مد نظر رکھتے ہوئے امام خمینی(رح) پائداری کی بنیاد اسلامی اقوام کا ایمان قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں:
" جب تک ہم اسلام کی جانب نہیں پلٹیں گے ، رسول اللہ کے اسلام کے جانب رخ نہیں کریں گے ہماری مشکلات اپنی جگہ باقی رہیں گی ایسی صورت میں ہم نہ مسئلۂ فلسطین کو حل کرپائیں گے نہ افغانستان اور نہ ہی دوسری جگہوں کے مسائل کو۔ تمام امتِ سلمہ اول اسلام کی جانب پلٹے اگر حکومتیں بھی اقوام کے ساتھ پلٹ آئیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے اور اگر نہ پلٹیں تو پھر اقوام اپنا حساب حکومتوں سے الگ کرلیں اور وہ حکومتوں کے ساتھ وہی سلوک اختیار کریں جس طرح کا سلوک ایرانی قوم نے کیا تا کہ مشکلات حل ہوپائیں"۔ ( صحیفۂ امام، ج۱۳، ص۸۹)
اسرائیل کی سازشوں سے مسلسل آگاہ کرنا
امام خمینی(رح) نے کئی بار اسرائیلی جارحیت اور موجودہ سرحد پر اکتفا نہ کرنے کو گوشزد کیا اور انہوں نے مطلع کیا کہ اس مقصد سے اسرائیل کی ہر طرح کی پردہ پوشی اور انکار صرف عالم اسلام کی عمومی افکار کو دھو کہ دینے اور اپنے انتہائی مقاصد تک پہونچنے کے لئے آہستہ آہستہ سیاست سے فائدہ اٹھانا ہے چنانچہ امام(رح) کی اسی باخبری پر دھیان دیا جاتا تو ہر قسم کی سازشوں کا راستہ بند ہوجاتا جس طرح اپنے خام خیالی کے مطابق ظالمانہ حکومتیں اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی پابندی کے سائے میں رکھ کر سرزمین فلسطین کے اہم علاقوں کو اس کے حوالے کرتے ہوئے سرزمین فلسطین میں ایک قسم کی محدودخودمختاری حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
یہودیوں اور صہیونیوں کے درمیان فرق
ہمیں معلوم ہے کہ صہیونیزم استعمارگری ، قو م پرستی ، جاہ طلبی کی آرزوؤں کے سائے میں ایک سیاسی اصطلاح ہے جو یہودی مذہب کے زیر سایہ مذہبی جلوہ نمائی کررہی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ قوم یہود کے ناجی کے عنوان سے اپنے مقاصد تک پہونچے۔لیکن صاحبان فکر پر عیاں ہے کہ عالمی یہودیوں کی جانب سے قومی وحدت کا دعوی صہیونیزم کی من گھڑت چیز ہے کہ اس خام دعوی کے ذریعہ وہ سرزمین فلسطین کو غصب کرتے ہوئے اس سرزمین پر اپنی جارحیت کا جواز ڈھوڈنا چاہتے ہیں۔ واضح ہے کہ ابتدا میں اس داستان کا اصلی چہرہ برطانیہ کی ظالمانہ حکومت تھی اور اب اس کی جگہ امریکہ نے لے لی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی استعمارکا دل ہر گز دین خدا اور دیندار لوگوں کے لئے نہیں جل رہا بلکہ وہ اپنے استعماری منافع کے درپے ہیں۔ امام خمینی(رح) نے ان حقیقتوں سے آگاہ ہونے کے نتیجہ میں مسئلۂ یہود اور صہیونیزم کو ایک دوسرے سے الگ کیا اور اس سازش کا مقابلہ کرتے ہوئے یہودیت کا دفاع کرنے والے کے چہروں سے نقاب ہٹایا اور صہیونیزم کو ایک سیاسی اصطلاح کے طور پر متعارف کرایا جو اصل دین اور انبیاء الہی کے مقاصد سے بر سر پیکار ہے۔
امت مسلمہ کا اتحاد، فلسطین کا راہ نجات
امام خمینی(رح) نے ہمیشہ اسلام کی جانب پلٹنے اور اتحاد کو فلسطین کی نجات اور صہیونیزم کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے شرط قرار دیا اور انہوں نے تاکید کی کہ اسرائیل کا بنیادی مقصد اسلام کی نابودی ہے لہذا وہ ہر طرح کے اختلاف منجملہ مذہبی اختلافات سے دوسری اختیار کرنے خواہاں تھے۔
اگرچہ عربوں کی اکثریت اور فلسطین میں سکونت پذیر مسلمان اہل سنت کے مذاہب کے پیروکار ہیں لیکن امام خمینی(رح) نے ایک شیعہ مرجع و فقیہ کے عنوان سے اپنی حمایت کو مسلسل جاری رکھا۔ امام(رح) نے مسئلۂ فلسطین کو اسلامی مقاصد سے مربوط سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے ہمیشہ تمام مسلمانوں بالخصوص لبنان کے شیعوں کو فلسطینیوں کی مدد کرنے کی تشویق دلاتے اور تاکید کرتے کہ فلسطین کی مشکل عالم اسلام کی مشکل ہے۔
امام خمینی(رح) ایک ارب سے زائد مسلمانوں پر مٹھی بھر صہیونیوں کی حکمرانی کو شرم آور قرار دیتے ہوئے کہتے تھے:
"کیوں اسلامی ممالک پر مٹھی بھر اسرائیل حکمرانی کرے جن کے پاس تمام چیزیں پائی جاتی ہیں نیزہر طرح کی طاقت ان کے پاس موجود ہے؟ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ قومیں حکومتوں سے الگ اور حکومتیں قوموں سے الگ ہیں ایک ارب مسلمان تمام ذرائع کے باوجود بیٹھے ہوئے ہیں اور اسرائیل اپنی جارحیت لبنان و فلسطین پر جاری رکھے ہوئے ہے"۔ ( صحیفۂ امام، ج۱۰، ص۴۱۷۔۴۱۸)
عالم اسلام کی صلاحیتوں اور فرصتوں سے مستفیدہونا
فلسطینی مظلومین کے حقوق کے دفاع نیز فلسطینیوں کے قیام کی حمایت میں اسلامی اقوام کو آمادہ کرنے کے بارے امام خمینی (رح) کا عقیدہ یہ تھا کہ فلسطینی قوم کے کلچر میں نہ پائے پائے جانے والے موضوعات ، عناوین اور مناسبتوں کی جانب مائل ہونے کے بجائے اسلامی آئیڈیالوجی اور اس کی صلاحیتوں سے مستفیدہونا چاہئے۔ ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کا "عالمی یومِ قدس" کے عنوان سے اعلان امام خمینی(رح) کی عالمانہ حکمت عملی کا ایک نمونہ ہے۔ رمضان کا مہینہ بہترین موقعہ ہے جس میں عالم اسلام ایک مہینہ روزہ داری سے حاصل شدہ معنویت نیز مذہبی و تربیتی رسومات کی انجام دہی کے نتیجہ میں مسلمانوں کے قبلۂ اول کی آزادی کے لئے اہم ذمہ داریوں کے لئے لازمی آمادگی پیدا کرے ۔ چنانچہ استکباری طاقتوں کی سیاسی و سماجی سازشوں نیز اسلامی سرزمینوں میں اس کی ان جارحیت میں مسلمانوں کی تلاش و کوشش سے کمی ہو، عالمی یومِ قدس ، قدس کی آزادی کے لئے اسلامی اقوام کو متحد کرنے اور انہیں آمادہ کرنے میں بہترین کردار اد کرسکتا ہے۔