ہماری مصروف ترین زندگی اور امام زمانہ (علیہ السلام)

ہماری مصروف ترین زندگی اور امام زمانہ (علیہ السلام)

اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت امام زمانہ علیہ السلام غیبت میں ہیں

تحریر: مولانا تصور حسین

 

حوزہ/ دنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور اس ترقی کی چکاچوند نے انسان کو مصروفیت کے ایسے دائرے میں قید کر دیا ہے جہاں وہ اپنے اصل مقصدِ حیات کو فراموش کر بیٹھا ہے۔ آج کا انسان، جو کبھی سکون قلب اور روحانی بالیدگی کا متلاشی تھا، اب محض آسائشوں اور مادی ترقی کے پیچھے دوڑنے والا ایک خودکار پرزہ بن چکا ہے؛ یہ زندگی ایک مشین کی مانند ہو گئی ہے، جس میں دن رات کی محنت صرف دنیوی سہولیات حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہے، جبکہ حقیقت میں انسان اپنے باطنی سکون سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔

 

یہ کیسا المیہ ہے کہ وہ رب، جس نے انسان کو پیدا کیا، اس کی تمام ضروریات کا خیال رکھا، اور اس کی ہدایت کے لیے ہر دور میں انبیاء و اوصیاء علیہم السّلام کو مبعوث کیا، آج اسی رب کی یاد انسان کی ترجیحات میں سب سے آخری درجے پر آ گئی ہے۔ انسان جسے سکونِ قلب کے لیے اللہ کی قربت کی ضرورت تھی، وہ اپنی تمام تر کوششوں کو دنیاوی تعیشات کے حصول میں صرف کر رہا ہے، مگر اس کے باوجود دل میں ایک بے نام سی خلش، ایک عجیب سی بے چینی ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ وہ جس سکون کی تلاش میں ہے، وہ نہ تو مال و دولت میں پنہاں ہے اور نہ ہی دنیاوی ترقی میں۔ یہ وہی سکون ہے جو صرف اور صرف خدا اور اس کے برگزیدہ نمائندوں کی معرفت میں مضمر ہے۔

 

یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کے ذریعے انسان کی ہدایت کا انتظام کیا، مگر انسانی غفلت نے ہمیشہ ان نعمتوں کی قدر کرنے میں کوتاہی کی۔ جب تک انبیاء اور آئمہ علیہم السلام موجود رہے، انسانوں نے ان کی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزارنے کے بجائے اپنی خواہشات کو مقدم رکھا۔ اور جب یہ نعمت ظاہری طور پر ان سے چھین لی گئی، تب انسان ایک بے راہ قافلے کی طرح بھٹکنے لگا، بے سکونی اس کا مقدر بن گئی، اور دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر اس نے خود کو مزید تاریکیوں میں دھکیل دیا۔

 

اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت امام زمانہ علیہ السلام غیبت میں ہیں، لیکن یہ غیبت ایسی نہیں کہ وہ دنیا کی ہدایت سے بالکل کنارہ کش ہو گئے ہوں۔ وہ سورج کی مانند ہیں جو بادلوں کے پیچھے چھپ کر بھی اپنی روشنی سے عالمِ ہدایت کو منور رکھتا ہے۔ ان کی برکت سے زمین و آسمان کا نظام قائم ہے، اور اگر وہ نہ ہوتے تو کائنات کا شیرازہ کب کا بکھر چکا ہوتا۔ امام علیہ السلام ہمارے درمیان موجود ہیں، ہمارے احوال سے بخوبی واقف ہیں، اور ہماری ہدایت کے لیے مسلسل کوشاں ہیں، مگر افسوس! ہماری آنکھیں اس حقیقت کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔

 

آج کے اس تیز رفتار اور مصروف دور میں، جہاں ہر شخص اپنی دنیاوی الجھنوں میں الجھا ہوا ہے، امام علیہ السلام کی یاد اور ان سے تعلق محض ایک رسمی چیز بن کر رہ گیا ہے۔ ہم امام کے نام سے واقف ضرور ہیں، مگر ان کی معرفت سے کوسوں دور ہیں۔ ہم ان کی دعاؤں کے محتاج ہیں، مگر ان کے ظہور کی حقیقی تڑپ ہم میں نظر نہیں آتی۔ اگر انسان امام کی معرفت حاصل کر لے، تو وہ اپنے امام سے اسی طرح محبت کرے گا جیسے ایک پیاسا مسافر چشمۂ زلال کی تلاش میں سرگرداں ہوتا ہے۔ وہ امام کی جدائی میں اس طرح تڑپے گا جیسے مچھلی پانی کے بغیر تڑپتی ہے۔

 

یہ وقت ہے کہ ہم اپنی بے مقصد مصروفیات سے نکل کر اپنی روحانی زندگی کی طرف متوجہ ہوں۔ دنیا کی رنگینیوں اور وقتی آسائشوں میں کھو کر ہم اپنی حقیقت کو نہ بھولیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت حاصل کریں، ان کی نصرت کے لیے خود کو تیار کریں، اور اپنی زندگی کو اس انداز میں گزاریں کہ ہم حقیقی معنوں میں ان کے سچے منتظرین میں شمار کیے جا سکیں۔ انتظارِ امام محض ایک عقیدہ نہیں، بلکہ ایک عملی ذمہ داری ہے، جو ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم خود کو اخلاقی، فکری اور عملی طور پر اس قابل بنائیں کہ جب امام علیہ السلام کا ظہور ہو، تو ہم ان کے حقیقی سپاہی بن کر ان کے لشکر میں شامل ہو سکیں۔

 

اللہ ہمیں وہ بصیرت عطا کرے کہ ہم امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنا سکیں اور اپنی بے راہ زندگی کو ان کی ہدایت کی روشنی میں گزار سکیں۔ آمین!

ای میل کریں