امام (رح) کی سیاسی بصیرت کے ضمن میں، ایک اور بہت بڑی خصوصیت یہ تھی کہ آپ بہت جلد یہ سمجھ لیتے تھے کہ دشمن کی دکھتی ہوئی رگ کونسی ہے، لہذا آپ اسی جگہ پر ہاتھ رکھتے تھے، جس دن مدرسہ فیضیہ پر حملہ ہوا یعنی، مارچ 1963ء کو آپ نے فورا یہ بات درک کرلی کہ یہ وحشیانہ حملے، اور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنا، صرف اور صرف اس لئے ہے کہ علماء اور روحانیوں کو ڈرا کر انہیں خاموش کردیا جائے، اور انہیں میدان سے بھگادیں۔
ضروری ہے کہ ایران کے حالات کو مدرسہ فیضیہ پر حملے کے بعد، عملی صورت میں دیکھا جائے، اور یہ دیکھا جائے کہ امام (رح) نے شاہ کو کس طرح ناکام بنایا، اس حملے کے بعد پورے ایران پر وحشت طاری ہوگئی اور شاہ کا رعب، اس قدر لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گیا تھا کہ شاید آنے والے پچاس سالوں تک بھی کوئی شاہ کے خلاف زبان کھولنے کی جرات نہ کرتا، لیکن امام (رح) نے اپنی فراست اور بصیرت کے سبب، اس سازش کو ناکام بنادیا۔ اس وحشتناک فضا میں، اچانک امام (رح) کی جانب سے ایک پمفلٹ جاری کیا گیا کہ جس میں یہ لکھا تھا:
"شاہ کی دوستی یعنی، غارت گری، شاہ دوستی یعنی، آدمکشی، یعنی اسلام کو منہدم کرنا اور پیامبر (ص) کی رسالت کے آثار کو محو کرنا و غیره و غیرہ۔"
اس طرح لوگوں کے درمیان شاہ دشمنی اور بھی شت اختیار کرگئی اور حضرت امام (رح) بڑے ماہرانہ طریقے سے دشمن کی سازش کو ناکام کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہاں تک کہ خود شاہ بھی اس پر انگشت بدہاں رہ گیا۔
آپ کی سیاسی بصیرت کی دوسری مثال بھی مئی 1963ء کی ہی ہے۔ 5 جون سے پہلے، جب شاہ نے یہ جان لیا اور اسے اس بات کا یقین ہوگیا کہ انقلاب نے سراسر ایران کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے، تو اس نے علماء اور کچھ دوسرے تہرانی اسکالرز کو ساواک ایجنسی کے حوالے کردیا اور ان سے کہا: ان کی اس قدر تفتیش کریں کہ وہ کبھی بھی شاہ اور اسرائیل کے خلاف اور اسلام کی حمایت میں بات نہ کریں! لیکن ساواک نے انہیں کہا: ہم یہ نہیں کہتے کہ تم تنقید نہ کرو یا بالکل کوئی بات ہی نہ کرو، بلکہ ہمارا سوال یہ ہے کہ تم لوگ تین کام نہ کرو، ایک تو شاہ کے خلاف کوئی بات نہ کرو، دوسرا اسرائیل کے خلاف اور تیسرا، یہ بھی نہ کہو کہ اسلام کو خطرہ ہے۔
جب اس بات کی اطلاع، امام (رح) کو ملی تو انہوں نے 3 جون کی تقریر میں دس جملوں سے بھی زیادہ جملے، اسرائیل کے خلاف بیان کیے جو مندرجہ ذیل ہیں:
"اسرائیل نہیں چاہتا کہ اس ملک میں دین یا دیندار باقی رہیں، اسرائیل نہیں چاہتا کہ اس ملک میں اسلام باقی رہے، اسرائیل چاہتا ہے کہ ملت کو خاک و خون میں غلطان کردے، اسرائیل چاہتا ہے کہ اس ملک کی زراعت کو تباہ کردے، تجارت کا خاتمہ کردے،...."
اس کے بعد شاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
" اس بدبخت کی چالیس سال عمر ہوگئی ہے، لیکن ذرا برابر بھی سوچ نہیں رکھتا۔ اے شاہ! تو تھوڑا سا غور و فکر کر، تھوڑی سی تدبیر سے کام لے، میں یہ نہیں چاہتا کہ ایک دن اگر تجھے یہ لوگ، اس منصب سے ہٹادیں تو تیرے بادشاہی سے اتر جانے پر لوگ خوشیاں منائیں!"
شاه نے ایک دن اپنے خصوصی نوکر کو امام (رح) کے پاس بھیجا کہ وہ امام (رح) کو امریکہ کی مخالفت سے روکے، کیونکہ یہ وقت امریکہ کی مخالفت کرنے کا نہیں، امریکہ، ان دنوں ایران میں اربوں کھربوں تومان خرچ کر رہا تھا تاکہ وہ ایرانیوں کے درمیان اپنی اچھی شناخت بناسکے۔
اس طرح امام (رح) نے سمجھ لیا کہ ان کی کھتی ہوئی رگ کونسی ہے، یہی وجہ ہے کہ پھر امام (رح) نے کیپٹالیزم کے خلاف اپنی تاریخی تقریر قم میں کی، اور فرمایا:
"امریکہ کے صدر کو یہ جان لینا چاہیئے کہ آج وہ ایران میں ایک منفورترین فرد ہے، آج قرآن مجید کو اس سے دشمنی ہے، ملت ایران کو اس سے دشمنی ہے ......"
یہ دور اندیشی، تیز بینی اور دشمن کی پہچان تھی کہ جس کے ذریعے امام (رح) دشمن کی حساسیت کو درک کر لیتے تھے اور ان کی دکھتی رگ پر کاری ضرب لگاتے تھے۔