کس قدر آیات اور روایات میں حسن خلق کی تاکید کی گئی ہے اور بداخلاقی سے منع کیا گیا ہے۔ اس موضوع پر اس قدر روایات آئی ہیں کہ ناقابل بیان ہیں جبکہ ہم ایسی کتابوں کے بارے میں غافل ہیں کہ جن میں اس موضوع پر بات کی گئی ہے۔
جی ہاں! اے میرے عزیز! اگر آپ کو کتابوں کے ساتھ کچھ وابستگی ہی اور حدیث کی کتابیں آپ پڑھتے رہتے ہیں تو آپ کو کتاب شریف کافی کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیئے، اور اگر آپ علمی بیان اور علماء کی اصطلاحات کا ذوق ہے تو اخلاق کی کتابیں پڑہیں، خصوصا کتاب طہارت الاعراق، اور اسی طرح مرحوم فیض، مجلسی اور نراقیاں کی کتابوں کی طرح رجوع فرمائیں۔ اور اگر آپ خود کو مطالعہ کا محتاج نہیں سمجھتے ہیں، یا اخلاق کریمہ سے متصف ہونے اور گناہوں سے بچنے کو اپنے لئے ضروری نہیں سمجھتے ہیں، تو اس وقت اپنی جہالت کا جوکہ، ام الامراض ہے علاج کروائیں....(چہل حدیث، ص 512)
امام صادق (ع) نے فرمایا: مکارم اخلاق اور کریمانہ صفات کے ساتھ متمسک ہوجائیں کیونکہ اللہ تعالی ایسی صفات کو پسند فرماتا ہے، اور برے اعمال سے بچیں کیونکہ اللہ تعالی ان سے نفرت کرتا هے۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا: حسن خلق کے ساتھ تمسک کریں کیونکہ یہ اپنے صاحب کو روزہ داروں اور نماز گزاروں کے مقام تک پہنچادیتا هے۔(کافی)
ابی جعفر محمد ابن علی (ع) نے فرمایا: ایمان میں سب سے افضل شخص وہ ہے کہ جس کا اخلاق نیک ہو۔(کافی)
اس موضوع پر بہت زیادہ روایات بیان کی گئی ہیں اور کیونکہ حسن خلق موجب کمال ایمان، ثقل میزان، اور دخول فی الجنان کا موجوب ہے، سوء خلق بھی ایمان کو فاسد اور انسان کو عذاب الهی میں مبتلا کردیتا ہے۔ اور اس کے بارے میں بہت ساری احادیث مبارکہ میں اشارہ کیا ہے۔
کافی شریف میں آیا ہے کہ ابی عبداللہ علیہ السلام سے منقول ہے:
جیسے سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے اسی طرح بد اخلاقی بھی ایمان کو فاسد کردیتی ہے۔
اور دوسری روایت میں آیا ہے: بداخلاقی اعمال کو ایسے ہی فاسد کردیتی ہی جیسے سرکہ شہد کو۔
امام (رح) کے بیٹے مرحوم سید احمد خمینی (رح) کا بیان ہے:
ایک مرتبہ بعد از ظہر تقریبا سات یا آٹھ میزائل محلہ جماران پر آگرے۔ میں جلدی سے امام (رح) کی خدمت میں پہنچا اور عرض کی کہ اگر ہماری جانب سے ایک میزائل صدام کے محل پر جالگے اور وہ ہل جائے تو ہم کس قدر خوش حال ہوں گے؟ اسی طرح اگر کوئی میزائل آپ کے گھر کے پاس آکر گرے اور اس سے آپ کے کمرے کی چھت گر جائے اور آپ اس کے نیچے آجائیں تو اس امت کا کیا بنے گا؟ امام (رح) نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
خدا کی قسم میں اپنے آپ میں اور اس فوج میں جو میرے گھر کے باہر کھڑی ہے کسی طرح کی تفریق کا قائل نہیں ہوں۔ اور خدا کی قسم اگر میں شہید ہوجاؤں یا ان میں سے کوئی شہید ہوجائے تو میرے نزدیک ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا۔ (پابہ پای آفتاب، ج 4، ص 50)