امام خمینی (رح)کی نظر میں حب دنیا کے اسباب حسب ذیل ہیں :
الف: ماں سے عشق
چونکہ انسان دنیا کا فرزند ہے لہٰذا دنیا کی دوستی زندگی کے آغاز ہی سے اس کے دل میں جڑ پکڑ لیتی ہے پھر آہستہ آہستہ بڑھنے لگتی ہے اور اس کے پورے وجود کو گھیر لیتی ہے، خدا نے نوع انسان کی حفاظت کیلئے اس کو لذت حاصل کرنے کے وسائل اور قوت شہوت سے نوازا ہے یہ بھی روز بروز عشق کاسبب بنتا ہے وہ اس طرح سے کہ وہ تمام چیزوں کو دنیا کی نظر سے دیکھتا ہے اور تمام لوگوں کے ساتھ یہاں تک کہ خدا کے ساتھ دنیوی نسبت برقرار کرتا ہے۔
امام خمینی (رح) لکھتے ہیں : انسان چونکہ اسی عالم طبیعت میں پیدا ہوا ہے اور اس کی ماں یہی دنیا ہے اور اولاد یہ آب وخاک ہیں ، اس دنیا کی محبت اس کی نشو ونما کے آغاز سے اس کے دل کے اندر بیٹھ جاتی ہے اور وہ جوں جوں بڑھتا ہے یہ محبت بھی اس کے دل میں بڑھتی ہے، قوت شہویہ اور لذت کے آلات سے خدا نے اس کو بہرہ مند کیا ہے ان دونوں کے ذریعے شخص اور نوع کی حفاظت کیلئے اس کی محبت بڑھتی رہتی ہے اور دل بستگی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔( شرح چہل حدیث، ص ۱۲۲)
ب: کمال مطلق سے عشق
انسان فطری طور پر کمال مطلق کا عاشق ہے اور اس کا دل ہمیشہ ایک ایسی موجود کی تلاش میں رہتا ہے جو ہر جہت سے کامل ہو تی کہ اس کو اپنی تکیہ گاہ قرار دے اور خدا کے علاوہ کوئی دوسری موجود ایسی نہیں ہو سکتی جو علی الاطلاق جمیل ہو اسی لئے فطری ونا آگاہانہ طور پر انسان اﷲ کی طرف مائل ہوتا ہے نہ کہ دنیا کی طرف۔ لیکن بعض انسان کمال مطلق کے مصداق کی تشخیص میں غلطی کر جاتے ہیں اور جو چیز (دنیا) کمال مطلق نہیں ہے اسے کمال مطلق سمجھ کر اس کے عاشق اور شیفتہ ہو جاتے ہیں اور جس قدر اس کے پیچھے پڑتے ہیں ان کے عشق وضرورت میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں :
کسی صاحب وجدان پر یہ پوشیدہ نہیں ہے کہ انسان اپنی فطرت اور ذاتی جبلت کے مطابق کمال تام مطلق کا عاشق ہے اور اس کا دل ایسے کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو جمیل علی الاطلاق اور کامل من جمیع الوجوہ ہے ۔۔۔ لیکن ہر شخص اپنے لحاظ سے کسی چیز کے بارے میں کمال مطلق کی تشخیص دیتا ہے اور اس کا دل اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے ۔۔۔ اہل دنیا نے چونکہ یہ تشخیص دی ہے کہ دنیا کی لذتوں میں کمال ہے اور ان کی نظر میں دنیا کا جمال آراستہ ہوتا ہے فطری طور پر اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے ۔۔۔ (لیکن چونکہ در حقیقت دنیا کمال مطلق نہیں ہے) دنیا کی زینتوں کو جتنا جمع کرتا جاتا ہے اس کے دل کا تعلق بڑھتا جا تا ہے ۔۔۔ دنیا کی حرص میں اضافہ ہو جاتا ہے، عشق بڑھ جاتا ہے، اسے دنیا کی ضرورت بہت زیادہ ہو جاتی ہے پھر فقر وضرورت اس کا نصب العین بن جاتی ہے۔( شرح چہل حدیث، ص ۱۲۷)
ج: حب نفس
امام خمینی (رح) اس کے بارے میں فرماتے ہیں :حب دنیا ہی ہے جو حب نفس سے پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ انسان سے جو کام سرزد ہوتا ہے چاہے اچھا ہو یا برا، لذت بخش ہو یا نہ، وہ اس کے نفس کے اندر اثر انداز ہو تا ہے اور انسان کی روح اس سے محبت کر کے اس سے وابستہ ہو جاتی ہے اور جتنا زیادہ اس کام کو ا نجام دیتا ہے اس کا اعتماد ودوستی بھی زیادہ ہوتی جاتی ہے مثلاً انسان کھانے پینے سے جو لذت حاصل کرتا ہے وہ انسان کے نفس میں اثر انداز ہوتی ہے اور جتنی زیادہ لذت حاصل کرے گا نفس اتنا زیادہ اثر قبول کرے گا اور اس لذت سے عشق کرے گا، اس کا عادی بن جائے گا اور اس سے وابستہ ہو جائے گا۔ بنابر این نفس جس قدر زیادہ دنیا کی طرف توجہ کرے گا اسی کے مطابق آخرت سے زیادہ غفلت کرے گا ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ آدمی کا دل کامل طور سے دنیا اور اس کے جلوؤں کی طرف متوجہ ہو جائے گا خدا اور آخرت سے منہ پھیر لے گا قرآن کے اعلان کے مطابق وہ زمین گیر (مفلوج) ہو کر پستی کی طرف مائل ہوجائے گا: { أخلد الی الأرض واتّبع ہواہ }۔
د: باقی رہنے کو پسند کرنا
انسان فطری طور پر فنا ونابودی سے فرار کرتا اور باقی رہنے کی تمنا رکھتا ہے اور چونکہ دنیاسے جانے اور الگ ہونے کو فناسمجھتا ہے اور اس سے فرار کرتا ہے لہٰذا دنیا کو دوست رکھتا ہے۔ امام خمینی (رح) فرماتے ہیں :
چونکہ فطری طور پر انسان باقی رہنے کو دوست رکھتا اور وہ فنا وزوال سے فرار کرتا ہے اور مرنے کو فناسمجھتا ہے ۔۔۔ لہٰذا اس دنیا میں باقی رہنے کو دوست رکھتا ہے اور وہ موت نیز اس نشأ ت سے خروج سے فرار کرتا ہے۔ (شرح چہل حدیث، ص ۱۲۲)
ھ: شیطان کا تسلط
امام خمینی (رح) کی نظر میں انسان کے باطن پر شیطان کا مسلط ہونا بھی دنیا کے اسباب میں سے ایک ہے کیونکہ شیطان آدمی کے باطن پر مسلط ہو کر اس کے دل کو حقیقت درک کرنے سے روک دیتا ہے اور اس کی اندرونی حس شنوائی کو اس طرح ختم کر دیتا ہے کہ خدا اور انبیاء (ع)کی باتیں جو انہوں نے دنیا کے بارے میں کہی ہیں وہ انہیں نہیں سنتا۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں : شیطان کے تسلط نے انسان کے باطن اور ہمارے دل اور باطنی شنوائی پر تصرف کیا ہے اور شیطان اتنی مہلت ہی نہیں دیتا کہ خدا، انبیاء(ع)، علماء اور کتب الٰہی کے مواعظ (جو دنیا کی حقیقت کے بارے میں ہیں ) ہمارے کانوں میں پہنچیں ۔ ہاں ! دنیا کے حیوانی کانوں میں بر حق نصیحتیں ظاہری حد سے تجاوز نہیں کرتیں کیونکہ: { ذٰلک لَذِکْریٰ لِمَنْ کَانَ لَہُ قَلْبٌ اَوْ ۔۔۔}۔( آداب الصلوٰۃ، ص ۴۶؛ سورۂ ق، ۵۰؍ ۳۷)
و: امور دنیا کے نتیجہ کا لمس
امام خمینی (رح) اس سلسلے میں فرماتے ہیں : کسی چیز سے محبت اس وقت ہوتی ہے جب اس کے نتائج کو درک کر لیا جاتا ہے ہم دنیاسے اس لئے محبت رکھتے ہیں کہ ہم نے اس کے نتیجے کو درک کیا ہے اور قلب اس پر ایمان رکھتا ہے اسی لئے اس کو کسب کرنے میں ہمیں کسی دعوت ونصیحت کی ضرورت نہیں ۔ (آداب الصلوٰۃ، ص ۴۵)
ظاہر ہے کہ ہر کام میں جب اس کے نتائج کا براہ راست احساس ومشاہدہ ہوتا ہے تو انسان کیلئے عشق وشوق ایجاد کرنے کاسبب بنتا ہے اور چونکہ انسان کی بصیر ت کا دائرہ محدود ہے اور وہ آسانی سے اخروی امور کا نتیجہ نہیں دیکھتا اسی لئے اس کے دل کے اندر آخرت کی روشنی بہت کم پیدا ہوتی ہے جس کی بنا پر انبیاء (ع) اور آخرت کی طرف دعوت کرنے والوں کی نصیحت کو بہت کم تسلیم کرتا ہے لیکن اس کے بر خلاف دنیوی امور کے نتیجے کو اسی دنیوی زندگی میں لمس ومشاہدہ کر لیتا ہے اور یہی چیز دنیا کو اس کی نظر میں اچھا بنا کر پیش کرتی ہے اور اس کے دل کے اندر دنیا دوستی کا بیج بو دیتی ہے اور وہ دنیا پر فریفتہ ہو جاتا ہے جب کہ کوئی اس کو دنیا کی طرف دعوت نہیں دیتا ہے۔