جب انسان کے تمام امور کا مرکز و محور صرف خدا کی رضا، رحمت اور اس کی خوشنودی کا حصول ہو، یا پھر جہنم سے نجات اور جنت کی طلب ہو تو اسے یہ شوق و امید نہیں رکھنی چاہیئے کہ وه جو کام کرے لوگ اس کی تعریف کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے کان لوگوں کی باتوں کی طرف لگے ہوتے ہیں اور اس کا دل ان کے سامنے خاشع ہوتا ہے تاکہ وه اس کی تعریف کریں۔ پس اگر واقعا ہدف خدا ہو تو پھر یہ تجاوز اور افراط کیوں؟ اگر آپ کو بہشت کا شوق اور جہنم کا ڈر ہے تو پھر یہ تعریف و تمجید کی خواہش کیوں ہے؟ ہمیں ہمیشہ آگاه اور ہوشیار رہنا چاہیئے کہ تعریف و تمجید کی خواہش وہی شجرہ خبیثہ ہے کہ جس کی جڑیں جاہ و جلال کی طلب سے جا کر ملتی ہیں۔ پس جس حد تک ممکن ہوسکے اس عمل کی اصلاح کریں اور اپنے آپ کو ان محبتوں کے جال سے نکال کر ایک خالص اور حقیقی مومن بننے کی کوشش کریں۔ (چہل حدیث، ص 56)
امام خمینی(رح) کے ذاتی اوصاف میں سے ایک صفت یہ بھی تھی کہ انہوں نے خود کو ایسی محبتوں کے جال سے رہائی دے رکھی تھی۔ آپ (رح) نے اپنی ساری زندگی میں اس بات کا خصوصی خیال رکھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ محبتیں آپ (رح) کی ذات میں نفوذ کرجائیں۔ شہید شاہ آبادی (رح) سے روایت کی جاتی ہے کہ انقلاب سے پہلے امام سے یہ تقاضا کیا گیا کہ آپ ایک خطیب سے ملاقات کریں، کیونکہ وہ آپ (رح) کا چاہنے والا بھی ہے اور اپنے علاقے میں ہر دلعزیز بھی۔ حضرت امام (رح) نے پہلے تو فرمایا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں، لیکن جب آقا شاہ آبادی نے بہت زیادہ اصرار کیا تو آپ نے فرمایا: میں پہلے بتا چکا ہوں کہ میری طبیعت ٹیک نہیں اور مجھے اب بھی بخار ہے لہذا میں اس کے گھر تک نہیں جاسکتا، اور دوسرا یہ کہ اب تو میں اس لئے بھی نہیں جاؤں گا کہ لوگوں نے بتایا ہے کہ وه میرا چاہنے والا ہے لہذا اب ان سے ملاقات خوشنودی خدا کے لئے نہیں بلکہ ذاتی خواہش کے لئے ہوگی اور میں نہیں چاہتا کہ اپنے ذاتی کام کو خدا کے کام پر ترجیح دوں، لہذا اب تو میں ان سے بالکل ہی ملاقات نہیں کروں گا۔ (پا بہ پای آفتاب، ج 2، ص 325)