امام خمینی(ره) تلاوت قرآن کی اہمیت کے بارے میں لکھتے ہیں :
رسول اکرم (ص) کی وصیتوں میں سے ایک وصیت تلاوت قرآن مجید کے بارے میں ہے اور اہل بیت عصمت وطہارت (ع) نے اس بارے جو کچھ بیان فرمایا ہے اس سب کے اس کتاب میں ذکر کئے جانے کی گنجائش نہیں ہے۔ پھر آپ بعض روایات ذکر کرتے ہیں اور قاریوں کے درجات اور تلاوت کے ثواب کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’بہت سی روایات میں عمدہ صورت میں قرآن کریم کے مجسم ہونے اور اس کا اپنے قاریوں اور اہل کی شفاعت کرنے کا ذکر ہوا ہے۔۔۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو صاحب ایمان جوانی میں قرآن کی تلاوت کرتا ہے، قرآن اس کے گوشت اور خون میں داخل ہوجاتا ہے اور خدا اس کو نیکوکاروں کے دسترخوان پر بٹھائے گا اور وہ آخرت میں قرآن کی پناہ میں ہوگا‘‘۔(شرح چہل حدیث، ص ۴۹۷)
امام خمینی(ره) اس کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کے معنوی اثرات اور قاری کے دل پر اس کی تاثیر کو بیان کرتے ہیں اور اس کی تشریح اور تجزیہ کرتے ہیں :
اس حصے میں ایک دلچسپ نکتہ جو آپ پیش کرتے ہیں یہ ہے کہ جو افراد حقیقی معنوں میں قرآن کے حامل ہوتے ہیں قرآن ان کی ذات میں مجسّم ہوجاتا ہے۔ قرآن کی صورت جن کے قلوب پر نقش ہوجاتی ہے ان کا باطن کلام الٰہی کی حقیقت بن جاتا ہے اور ان افراد کے مقامات ودرجات ہوتے ہیں اور قرآن کریم کے فہم اور اس پر عمل کیلئے کی جانے والی ہر کوشش اس بات کا موجب بنتی ہے کہ ان کی استعداد اور قابلیت بلندتر مراتب کو قبول کرنے کیلئے آمادہ ہوجائے یہاں تک کہ شخص کی ذات کا باطن خدا تعالیٰ کے جامع کلام الٰہی کی مکمل حقیقت بن جائے۔ اس صورت میں مجسم قرآن بننے والا شخص خود ناطق قرآن بن جاتا ہے۔ وہ قرآن جامع اور فرقان قاطع ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع) ہیں ۔ آپ ؐکی ذات میں خدا تعالیٰ کی عظیم آیات پائی جاتی ہیں اور آپ مکمل وکامل قرآن ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دعا مانگنے، عبادت کرنے اور قرآن کی تلاوت اور اس کی تکرار کا حکم دیا گیا ہے تاکہ شخص کی ذات کا باطن عبادت وقرآن کی صورت اختیار کرلے۔( شرح چہل حدیث، ص ۴۹۹)
امام خمینی(ره) اس سلسلے میں وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’جو شخص خدا تعالیٰ کی تکوین وتدوین کی کتابوں میں موجود اسمائے الٰہی اور آیات کی تلاوت کا عادی ہوجاتا ہے اس کا دل دھیرے دھیرے آیت وذکر کا رنگ اپنا لیتا ہے اور اس کا باطن ذات ذکر اﷲ، اسم اﷲ اور آیت اﷲ بن جاتا ہے۔۔۔ مقام ذکر ایک ایسا عظیم مقام ہے جو زبان وقلم کے بیان سے باہر ہے اور ایسے اہل معرفت اور جذبہ عشق ومحبت سے سرشار افراد کیلئے یہی آیت کافی ہے کہ جس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے: { فاذکروني أذکرکم } ‘‘ (بقرہ ؍ ۱۵۲)۔( آداب الصلاۃ، ص ۲۱۶)
قرآن کریم کی تلاوت کی تاثیر سے متعلق اس طرح کا عرفانی تجزیہ اور بیان صرف وہی افراد پیش کرسکتے ہیں جو ایک طرف تو خود تلاوت قرآن کے عاشق ہوں اور دوسری جانب اس کے مراتب ودرجات سے آگاہی رکھتے ہوں اور مقام عمل میں اپنے تجربے کے ساتھ ان کو حاصل کرچکے ہوں۔