صلیبی جنگوں کے بعد یورپ والوں نے مسلمانوں کی طاقت اور یورپ کے مرکز میں اسلام کی ترویج کی روک تھام کا ذریعہ اسلامی سلطنت کو متعدد ممالک میں تقسیم کردینے کو جانا۔ جدید سامراج نے بھی اس روش کے ذریعے اور اسلامی ممالک میں نیشنلزم، قوم پرستی اور فرقہ واریت کی ترویج کے ذریعے انہیں یہ بے ہودہ نظریات باور کرادئے ہیں ۔ مسلمانوں کو قومی اور نسلی جنگوں میں الجھا کر ان کی توجہ اسلامی سرزمینوں کی لوٹ مار سے ہٹا دی ہے۔ امام خمینی (ره) اس حوالے سے فرماتے ہیں : ’’امریکہ اور روس اسلام اور اسلامی حکومتوں کو کمزور کرنے کیلئے اسلامی اور غریب ممالک میں اپنے پٹھووں یا فریب خوردہ افراد کے ذریعے تفرقہ پھیلانے، کشیدگی پیدا کرنے اور جنگ کے بازار گرم کرنے جیسے کاموں میں مصروف ہیں‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۸، ص ۱۲۰)
آپ مزید یاد دہانی فرماتے ہیں : ’’یہ جو میں باربار کہتا ہوں کہ قوم پرستی مسلمانوں کی بدبختی کا پیش خیمہ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ قوم پرستی، ایرانی قوم کو دیگر مسلمان اقوام کے مقابل صف آرا کردیتی ہے۔ عراقی قوم کو دوسروں کے مقابل، فلاں ملت کو فلاں ملت کے مقابل۔ یہ سامراجیوں کی سازش ہے تاکہ مسلمان اکٹھے نہ ہونے پائیں ‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۲، ص ۲۸۰)
’’بعض شیطان صفت لوگ جو اسلام کے بھی معتقد نہیں ہیں کبھی شیعہ سنی کے نام پر اور کبھی ترک وفارس کے نام پر پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۴، ص ۱۸۸)
حضرت امام خمینی (ره) نے اس سازش کو ناکام بنانے کیلئے مسلمانوں کو اصلی اسلام کی پناہ میں آنے اور اتحاد سے کام لینے کی دعوت دی۔ ’’اگر اسلامی حکومتیں ہوش میں آئیں اور اسلام کی جانب مائل ہوں عربیت سے اسلام کی جانب لوٹ آئیں ۔ ترکیت کو چھوڑ کر اسلام کی پناہ میں آئیں تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔۔۔ جب تک ہم رسول اﷲ ؐ کے لائے ہوئے اسلام کی جانب نہیں لوٹیں گے تب تک نہ مسئلہ فلسطین حل کرسکتے ہیں نہ افغانستان کا مسئلہ اور نہ ہی دیگر مقامات کا‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۲، ص ۲۷۸)
حضرت امام خمینی (ره) کے نزدیک عالمی لیٹروں اور تسلّط کے طلبگاروں کے مقابلے میں مسلمانوں کی بھلائی اتحاد میں ہے اور آپ منافقت اور فرقہ واریت کو، جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے، ناکامی اور ہلاکت کا سبب جانتے تھے۔ ’’اسلام اور مظلوم مسلمانوں کے عظیم مفادات کو فرقہ واریت اور قوم پرستی پر قربان نہ کردیا جائے اور اپنے مسلمان بھائیوں کو زیادہ سے زیادہ اتحاد کی اور ان جاہلی عصبیتوں کو ترک کرنے کی دعوت دی جائے جن کا فائدہ فقط عالمی لیٹروں اور ان کے پٹھووں کو پہنچتا ہے‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۲۰، ص ۱۶)
آپ مزید فرماتے ہیں : ’’کسی قوم کو دوسری قوم پر، سفید فام کو سیاہ فام پر، سیاہ فام کو سفید فام پر، غرض کسی کو دوسرے پر کوئی فضیلت وبرتری حاصل نہیں ہے۔ فضیلت اور برتری کا معیار تقویٰ، فرض شناسی اور اسلام کی پابندی ہے۔ یہ سب پروپیگنڈا سپر طاقتوں نے ہمیں لوٹنے کیلئے کیا تھا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعص سچے مسلمانوں نے بھی اسے باور کرلیا تھا‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۲، ص ۲۸۰)