اسلام روز اول سے روز آخر تک انقلاب ہی انقلاب ہے۔ اس انقلاب کا آغاز سرزمین عرب پر نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زیر سایہ ہوا، جب گنوار اور جاہل معاشرے کے بدو جو ظلم و جور اور انسانی اقدار کی المناک پستیوں میں گھرے ہوئے تھے، جوک در جوک دائرہ اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے اور مہذب ترین قوم ٹہھرے۔
جب ہم آج کی استعماری طاقتوں کے طریقہ کار کو دیکھتے ہیں خصوصاً امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک جس طرح مظلوم اقوام پر اپنا تسلط باقی رکھنے کے لئے مختلف حیلے بہانے کر کے فرقہ واریت اور مذہبی انتشار پھیلا رہے ہیں، تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ان شیطانی سازشوں کا توڑ امام حسین ع نے کربلا میں اپنے ایک ایک اقدام سے کر کے ہمارے لیے روشن مثال قائم کر دی اور اپنی تعلیمات میں آنے والے ہر شیطان صفت اور انسانیت کے دشمن سے بچنے کے عملی طریقے تعلیم کئے ہیں۔
چنانچہ آج امام عالی مقام کے ہی مشن پر چل کر موجودہ دور کے مصلحین انسانیت کو روشن راستہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، اسی کربلا کی تحریک کو بنیاد بناتے ہوئے ایران کے انقلاب اسلامی کے بانی حضرت آیت اللہ العظمٰی امام خمینی رہ نے ایران کی اڑھائی سو سالہ شہنشاہیت کو چیلنج کر دیا اور ظالم و جابر بادشاہ وقت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
یہ امام خمینی رہ کی کرشمہ ساز شخصیت ہی تھی کہ جس نے نہ صرف ایران کے عوام کے حقوق کی جنگ لڑی، بلکہ عالمی سطح پر رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کی بھی پیشین گوئیاں کیں، جو ان کی رحلت کے بعد بدرجہ اتم پوری ہوتی چلی گئیں۔
یہ بصیرت، دانائی اور عملی مجاہد ہونے کی صفت امام خمینی رہ کو اہل بیت اطہار علیہم اسلام سے عشق اور ان کی تعلیمات پر آنکھیں بند کر کے کاربند رہنے کی بدولت حاصل ہوئی، خصوصاً امام خمینی رہ نے ظالم کے خلاف قیام کرنے اور حق کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنا نواسۂ رسول حضرت امام حسین ع سے سیکھا اور اسے عملی زندگی میں استعمال کرتے ہوئے ایک ایسی تاریخی ریاست کی بنیاد رکھی، جو آج ان کی وفات کے بعد بھی امریکہ اور اسکے ہواریوں کو کھٹک رہی ہے۔
اسی عشق حقیقی نے امام خمینی رہ کی شخصیت کو استعمار کے لیے شدید ترین خطرہ بنا دیا تھا اور استعماری طاقتوں نے آپ کے مقابلے کے لیے ہر حربہ سرائی کو استعمال کیا مگر انھیں محمد و آل محمد ص کے اس سچے عاشق کے سامنے ہر میدان میں گھٹنے ٹیکنے پڑے۔
مختصراً، اسلام ایک ایسے انقلاب کا نام ہے جس کا آغاز عرب کے صحرا سے ہوتا ہوا کرب و بلا کی خاک پر پوری آب و تاب سے انسانی افق پر طلوع ہوا اور اس کے ثمرات ایران سے ہوتے ہوئے، بحرین اور یمن سمیت دیگر مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کی ریاستوں پر مرتب ہوئے۔
اب یہ ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم اسلامی انقلاب کو اپنے اعمال سے پوری دنیا پر آشکار کریں اور کربلا کے اصل مقصد کو تمام ذاتی مفادات اور تعصب سے بالاتر ہو کر زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔