عربی زبان میں ’’احیا‘‘ کا لفظ زندہ کرنے اور حیات نو دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور فارسی لغت میں بھی کتب لغت نے اس لفظ کے یہی معنی ذکر کئے ہیں ۔
’’احیاء‘‘ کے مفہوم کو دیکھتے ہوئے ’’احیائے دین‘‘ کے معنی یہ ہوں گے، دین کو زندہ کرنا، اسے حیات نو دینا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دین اور دینی اقدار کہ جو زندگی سے محروم ہوچکی ہیں انہیں ہم پھر سے زندہ کرنا۔
اب یہ سوال پیش آتا ہے کہ آیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ دین کو زندہ کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ دین اور دینی اقدار انسانوں اور انسانی معاشروں کیلئے زندگی کی اساس وبنیاد ہیں یعنی درحقیقت زندہ کرنا دین کی صفت ہے جیسا کہ آیت ہے:
{یا ایہا الذین آمنوا استجیبوا ﷲ وللرسول اذا دعاکم لما یحییکم}( سورۂ انفال ؍ ۲۴)
(اے ایمان والو! خدا اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمہیں ایسی چیز کی طرف پکاریں جو تمہیں زندگی عطا کرے)
حضرت امام رضا (ع) نے بھی اپنے ایک خطاب میں شیعوں سے فرمایا: {احیوا أمرنا}( دہ گفتار، ص ۱۱۱ )
(ہماری ولایت کو زندہ رکھو)
البتہ دین کی حقیقت وبنیاد موت کا شکار نہیں ہوسکتی اور دینی حقائق اور کلی اصول کبھی نہیں مرتے بلکہ وہ جو موت کا شکار ہوتا ہے وہ دین کے بارے میں لوگوں کا طرز فکر ہے، لوگوں میں دینی انداز فکر مرجاتا ہے اور لوگ دین اور دینی اقدار کے بارے میں غلط افکار پیدا کرلیتے ہیں ۔ امام خمینی (ره) نے اپنے سیاسی الٰہی وصیت نامے میں قرآن کے احیاء کے ضمن میں یہی حقیقت بیان کی ہے، کیونکہ امام خمینی (ره) کی نظر میں قرآنی حقائق زندہ وجاوید ہیں لیکن بشر کا ادراک قرآنی حقائق کے بارے مردہ ہوسکتا ہے اور قرآن کو زندہ کرنے کا ایک مصداق یہی ہے کہ قرآن کو مردوں اور قبرستان سے چھٹکارا دلایا جائے۔ امام خمینی (ره) فرماتے ہیں :
’’ہمیں اور اسلام وقرآن کی پابند ہماری قوم کو یہ فخر حاصل ہے کہ ہم ایک ایسے مذہب کے پیروکار ہیں جس نے قرآن کے حقائق کو جو کہ مسلمانوں بلکہ بشر کے درمیان اتحاد کے فرامین سے لبریز ہیں قبروں اور قبرستانوں سے نجات دلا کر اسے ایسے ضابطہ حیات کے طور پیش کیا کہ جس بشر کو اس کی عقل، ہاتھ، پاؤں اور دل پر باندھی گئی زنجیروں سے جو کہ اسے نابودی، غلامی اور طاغوتوں (سامراج) کی بندگی کی طرف کھینچ کرلے جاتی ہیں نجات دلاتا ہے‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۲۱، صفحات ۱۶۹، ۱۷۱)
امام خمینی (ره) کے اس کلام کے پیش نظر قرآن اور دین ثابت اور پائیدار حقائق پر مشتمل ہیں کہ جو زندہ جاوید ہیں اور کبھی نہیں مرسکتے بلکہ قرآن، دین اور دینی اقدار کے بارے میں لوگوں کا انداز فکر موت کا شکار ہوتا ہے۔