تمام میدانوں منجملہ محروموں ، مستضعفین کے دفاع اور غربت کے خاتمے اور معاشرتی عدالت کی برقراری کے میدان میں امام خمینی(ره)کے نظریات کی وسعت اور گہرائی فطری طور پر اس امر کی باعث بنی کہ آپ اس مسئلے کو ایران کے حدود حتی کہ دنیائے اسلام کے حدود سے بالاتر بیان کریں ۔ اس مسئلے کے حوالے سے امام خمینی(ره) کا نظریہ ایک بنیادی نظریہ ہے جو تمام انسانوں سے متعلق ہے اور یہ کسی ایک ملک ، قوم اور ایک دین کے پیروکاروں تک محدود نہیں ہوتا ہے۔ یہ ہے وہ نظریہ جو اسلامی تحریک کے عظیم الشان قائد کا استکبار و سامراج کے بارے میں ہے اور آپ قائل ہیں کہ جس سفر کا آغاز کیا ہے وہ ’’اس دن ختم ہوگا جب دنیا بھر کے مستضعفین مستکبرین کے تسلط کے جوئے سے آزاد ہوجائیں گے‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۷، ص ۲۰۴)
یہ زاویہ نگاہ جد و جہد کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے اور اسلامی جمہوریہ کے نظام کے بانی اس سلسلے میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ دنیا بھر کے ناداروں کی حکمرانی کے لئے آپ (عالم اسلام کی سطح سے بھی زیادہ وسیع) ایک اسلامی انسانی محاذ کی تشکیل کی تجویز پیش کرتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کو دنیا بھر کے آزاد مسلمانوں کی دائمی پناہ گاہ قرار دیتے ہوئے (کشف اسرار، ص ۵) اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ یہ اسلامی نظام اسلام کے فوجیوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے تیار ہے۔ آپ اس سے بھی آگے بڑھ کر صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں:
’’میں کمانڈر انچیف کی حیثیت سے تمام حکام اور پالیسی سازوں کو حکم دیتا ہوں کہ وہ کسی طرح کے حالات میں بھی مسلح افواج کی تقویت ، اعتقادی اور عسکری ضروری مہارتوں کا گراف بڑھانے خصوصاً عسکری خود کفالت کی جانب آگے بڑھنے سے غفلت نہ برتیں اور اس ملک کو خالص اسلام کی اقدار اور دنیا بھر کے محروموں اور مستضعفین کے دفاع کے لئے تیار رکھیں ۔ ایسا نہ ہو کہ دوسرے پروگراموں کی جانب ان کی توجہ اس انتہائی حساس امر سے ان کی غفلت کا موبن بن جائے‘‘۔ (کشف الاسرار، ص ۶)
دنیائے اسلام کے بارے میں امام خمینی(ره) نے ایک ایسی اسلامی حکومت تشکیل دینے کی تجویز پیش کی ہے جو خود مختار اور آزاد جمہوریاؤں پر مشتمل ہو اور ان جمہوریاؤں کی حکومت دنیا بھر کے مستضعفین کے اختیار میں ہو۔ امام خمینی(ره) اسلامی نظام کی بیان کردہ غربت کے خاتمے کی پالیسی کے عملی نفاذ کو عالمی لٹیروں کے ناامید ہونے اور دنیا بھر کی اقوام کے اسلامی انقلاب کی جانب مائل ہونے کا سبب قرار دیتے ہیں ۔
’’اس میں شک نہیں کہ عالمی لٹیروں کو جس قدر شہادت پسندی اور ملت کی ایثار و قربانی پر مبنی دیگر اقدار پر تشویش ہے اسی قدر اس امر پر بھی تشویش ہے کہ اسلامی اقتصاد کا رجحان محروموں کی حمایت کی جانب ہے ۔ یقینا ہمارا ملک غربت کے خاتمے اور محروموں کے دفاع کے لئے جتنا آگے بڑھے گا اسی قدر عالمی لٹیروں کی ہم سے توقع ختم ہوگی اور دنیا کی ملتوں کا رجحان اسلام کی جانب زیادہ ہوگا‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۱۸، ص ۸۹)