مستضعفین و محرومین کی آواز جنہوں نے بیسویں صدی میں امت مسلمہ کی قیادت و علمبرداری کی اور ایک عظیم اسلامی انقلاب برپا کرکے اڑھائی ہزار سالہ بادشاہت کا خاتمہ کیا۔
دنیا انہیں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (ره) کے نام سے یاد کرتی ہے۔ آپ نے اس انقلاب سے بہت پہلے امت مسلمہ کے قلب میں اس خنجر (اسرائیل نامی صیہونی ریاست) کی طرف متوجہ کیا اور ان خطرات سے مسلسل آگاہ و خبردار کیا جو مستقبل میں اس منحوس سازش کے عملی ہونے کے بعد مرتب ہوسکتے تھے۔ آپ نے اس حوالے سے نہ صرف اپنی صدا بلند کی بلکہ اسلامی مملکتوں کے سربراہوں کو اس مسئلہ کا حل بھی بتاتے رہے، کبھی تو آپ کی آواز ان الفاظ میں خبردار کرتی :
"اسلامی ممالک کے سربراہوں کو متوجہ ہونا چاہئے کہ فساد کا یہ جرثومہ (صہیونی ریاست)، جس کو اسلامی سرزمینوں کے قلب میں تعینات کیا گیا ہے، صرف عرب اقوام ہی کو کچلنے کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کا خطرہ اور ضرر پورے مشرق وسطٰی کو درپیش ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ دنیائے اسلام پر صہیونیت کا غلبہ ہو اور اسلامی ممالک کی زیادہ سے زیادہ زرخیز اراضی کو استعمار کا نشانہ بنایا جائے اور صرف اسلامی حکومتوں کی جانفشانی، استقامت اور اتحاد کے ذریعے ہی استعمار کے سیاہ سپنے سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے اور اگر اسلام کو درپیش اس حیاتی مسئلے میں کسی بھی حکومت نے کوتاہی کی تو دوسری حکومتوں پر لازم ہے کہ اس حکومت کو سزا دیں، اس سے تعلقات توڑ دیں اور دباؤ ڈال کر اس کو اپنے ساتھ چلنے پر آمادہ کریں ۔ تیل کی دولت سے مالامال اسلامی ممالک پر لازم ہے کہ تیل اور دوسرے وسائل سے اسرائیل کے خلاف حربے (اور ہتھیار) کے عنوان سے استفادہ کریں اور ان ممالک کو تیل بیچنے پر پابندی لگائیں جو اسرائیل کی مدد کررہے ہیں"
ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہونے کے بعد بانی انقلاب حضرت امام خمینی (ره) نے جمعۃ الوداع کو عالمی یوم القدس قرار دیا۔ ایران میں قائم اسرائیلی سفارت خانہ کو فلسطینیوں کے سپرد کرکے ایک ایسا پیغام دنیا کو دیا، جس سے اسرائیل و امریکی ایوانوں میں زلزلہ طاری ہوگیا اور مزاحمت کے دیوانوں کو امید صبح نظر آنے لگی۔ آپ نے یوم القدس اس کی اہمیت و ارزش بیان کرتے ہوئے اسے یوم الاسلام اور یوم اللہ و یوم رسول اللہ کہا اور امت اسلامی کو اسے منانے کی بھی بھرپور تاکید فرمائی۔ انہوں نے اسرائیل نامی ناجائز ریاست کو سرطانی جرثومے سے تشبیہ دی اور اس کیخلاف تمام وسائل سے لیس ہو کر امت کو اس کیخلاف جہاد کا سبق پڑھایا۔ اسلام کے اس حقیقی درد آشنا نے ہر موقع پر اسرائیل کی نابودی اور امت کے اتحاد کی دعوت دی اور ان خطرات سے خبردار کیا جو مستقبل میں پیش آسکتے تھے۔ آپ نے ایک موقع پر فرمایا:
"آج مسلمانوں کا قبلہ اول، اسرائیل مشرق وسطٰی میں اس سرطانی پھوڑے کے زیر قبضہ چلا گیا ہے۔ آج وہ پوری طاقت سے ہمارے عزیز فلسطینی اور لبنانی بھائیوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور خاک و خون میں تڑپا رہا ہے۔ آج اسرائیل تمام تر شیطانی وسائل کے ذریعے تفرقہ اندازی کر رہا ہے۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اپنے آپ کو اسرائیل کے خلاف (ضروری وسائل سے) لیس کرے۔"