جیسا کہ صاحبان علم حضرات اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ دنیا خورشید اسلام کے طلوع ہونے سے پہلے تاریک وظلمانی تهی اور اس پرجہل و آشفتگی کا سایہ تها۔ قدرتمند، مستضعفین کو اپنا غلام بنائے ہوئے تهے اور عالم بستی دو بڑی طاقتوں ایران و روم میں تقسیم ہوچکا تها اور ان دو قوی حکومتوں نے اپنی طولانی جنگوں کے ذریعے دنیا میں ہر طرف دہشت و خوف کا سیلاب جاری کر رکها تها۔
دوسری طرف، یہود و نصاری اگر اس دور میں خود کو موحد و متدین اور آسمانی ادیان و پیامبران الہی کا پیرو سمجهتے تهے لیکن عمل و کردار کے لحاظ سے تعلیمات پیامبران الہی سے بہت دور تهے۔
قوم عرب اپنی عربیت پر فخر فروشی کی وحشیانہ اور جاہلانہ زندگی میں مست، سرزمین حجاز جیسی وسیع اور زمین پراکندہ تهی ان کے درمیان قتل و غارتگری کا بازار بہت گرم تها شرک و بت پرستی عروج پر تهی۔
ایسے ہولناک ماحول میں خداوند عالم نے انسانیت پر اپنے لطف وکرم کی بارش کردی اور اپنے محبوب نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ظلم و ستم کی چکی میں پسی ہوئی انسانیت اور متحیر و سرگردان انسان کے لئے راہنما بنا کر مبعوث کردیا۔ اسلام کا نور ہدایت پوری دنیا میں پهیلا اور لوگ اسلامی تعلیمات اور پیغمبر اکرم سے منسلک ہونے لگے، اخوت و برادری کا پرچم لہرانے لگا اور:
ترے وجود سے رحمت کو اعتبار ملا /-/-/ ترے وجود سے خلقت کو افتخار ملا
ترا وجود غلامی کو دے گیا زنداں /-/-/ ترے وجود سے انسان کو وقار ملا
ترا وجود تمدن کو دے گیا نقشہ /-/-/ ترے وجود سے دیں کو خرِد کا ہار ملا
اسلام کی طرف بڑهتے ہوئے لوگوں کے قدم اور اس کی تعلیم، تہذیب و تمدن سے متاثر لوگوں کا اسلام قبول کر لینا جو دشمنان اسلام کی آنکهوں کو چکا چونده کر رہی تهی جو نہ ہی اسلامی تمدنی و ثقافت کی پیشرفت کو روک سکتے تهے اور نہ ہی دنیا کے تمام مسلمانون کا خاتمہ کر سکتے تهے، لہذا انہوں نے جو وسائل استعمال کئے اور جو سازشیں رچیں وہ یہی ہے کہ اسلامی حکومتوں پر مسلط ہو کر اور اپنے دام فریب میں انهیں ترقی کے نام پر بے دینی، عربیت و عجمیت اور فرقہ گرائی کا زہر گهولا اور مسلمانوں کے ہاتهوں مسلمانوں کا ہی قتل عام کروانے لگے اور آج عصر حاضر میں جو ان کی حال زار ہے وہ ناقابل بیان ہے! آخر کیوں؟!!
اس لئے کہ کل ان پر مادی غلبہ کا ابر ضالہ سایہ افگن نہیں تها، آپس میں سب متحد و منسجم تهے، فسق و فجور سے دور تهے، دشمنوں کی گندی اور شیطانی سیاست و سازشوں سے بخوبی واقف تهے لیکن آج دشمنوں نے انهیں فسق و فجور میں الجهاکر تعلیمات اسلامی سے دور کردیا اور آپسی تمام اتحاد و انسجام، امن و ایمان... کو ان سے سلب کر لیا جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ مسلمان زمانہ جاہلیت سے بهی بـدتر حالات کی طرف پلٹ گئے کہ ان کے درمیان بات بات میں اختلاف ہونے لگا!!
اور دشمن بدخواہ استکبار واستعمار نے موقع غنیمت سمجها اور تجاوز وغارت کا آغاز کردیا۔
علامہ اقبال کے بقول:
بجهی عشق کی آگ اندهیر ہے /-/-/ مسلماں نہیں راکه کا ڈهیر ہے!
لہذا ہمیں چاہیئے کہ ہم اسلام کی اعلی تعلیمات اور اس کے اخلاقی فضائل کے مد نظر چراغ ہدایت کے ذریعے خود بهی حق کی تلاش کریں اور عالم انسانیت کو بهی تاریکی و ظلمت سے نجات دیں جو معنویت سے خالی و عاری ہے کیونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہر مسلمان مرد وعورت کا فریضہ ہے، لوگ اجتماعی زندگی میں ایک دوسرے کے معاون و مددگار رہیں اور جب انهیں اپنے مشترکہ دشمنوں سے نبرد آزمائی کرنی پڑے تو وہ با آسانی اس میں متحدہ قوت کو بروکار لا کر اسے ہر محاذ پر شکست دیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ہمارا سماج، ہمارا کلچر اور ہمارا اجتماع اسی وقت تمام فساد و گناہ سے پاک ہوسکتا ہے جب ہم، ہر فرد حسب ذیل باتوں کو اپنا مطمع نظر بنا لے:
1۔ اخوت اسلامی، مساوات اور آپسی مہر و محبت
2۔ تمام لوگوں کے حقوق کا تحفظ اور ایک دوسرے کا احترام
3۔ مراکز گناہ و فساد کی بیخ کنی اور نفس پرستی سے اجتناب
اگر ان تین باتوں پر جو اتحاد و اتفاق کی اساس و بنیاد ہیں اپنے ملحوظ خاطر رکها جائے تو ہمارا سماج ہر قسم کے انحراف و انحطاط سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
رہبر کبیر انقلاب حضرت امام خمینی(رح) فرماتے ہیں:
اسلام نے تمام مذاہب اسلامیہ کو حبل الہی سے متمسک رہنے کی دعوت دی ہے اور اس دستور الہی سے سر پیچی جرم ہے، گناہ ہے۔ دستور اسلام ہے کہ ہم سب ''معتصم بہ حبل اللہ'' رہیں۔
نیز آپ(رہ) فرماتے ہیں: تمام ملت و حکومت اسلامی اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ اپنے اسلامی اہداف و مقاصد میں کامیاب و کامران ہو جا ئیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ حبل الہی سے متمسک رہیں اور اختلافات اور تفرقہ سے پرہیز کریں اور حکم و دستور حق تعالی کی اطاعت کریں۔ یہ خدا کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت و برکت ہے اور تمام برداران اہل تسنن و تشیع کو یکجا جمع کردیا۔ لہذا سب مل کر اسلام کی کامیابی و کامرانی کے لئے کوشش کریں کیونکہ اسلام مغلوب ہونے کے لئے نہیں بلکہ تمام ادیان و جہان پر غالب ہونے کے لئے آیا ہے۔
ما مسلمان چہ نیکو روزگاری داشتیم /-/-/ راستی خوش عزت و خوش اعتباری داشتیم
چون گل و بلبل ،انیس و مونس و دمساز /-/-/ در گلستان وفا ،خوش برگ و باری داشتیم
درمیان ما در آمد عاقبت دست نفاق /-/-/ رفت از آن بر باد هر عزّ و وقاری داشتیم۔
بشکریہ اہل بیت(ع) پورٹل