جس طرح مفسر کے اعتقادات یا معلومات روش تفسیر اور معانی کے استنباط میں موثر ہوتی ہیں اسی طرح مبانی اور نظریات بھی تفسیر میں اثر انداز ہوتے ہیں اور ان سے تفسیر میں مفسر کی شخصیت کے کردار کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اعتقادات اور نظریات کے درمیان فرق یہ ہے کہ مفسر اعتقادات خصوصاً کلامی ومذہبی اعتقادات میں واضح موقف اختیار کرتا ہے۔
اگر مفسر شیعہ اور موالیان اہل بیت (ع) میں سے ہو تو وہ نمایاں موقف رکھتا ہے اور جن زیر بحث آیات کی تفسیر میں اختلاف ہوتا ہے ان کے سلسلے میں اس کا موقف واضح ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم تفسیر میں شیعہ وسنی تفاسیر اور اشعری، معتزلی، سلفی اور ظاہری جیسے عام مکاتب کی تفسیروں کی درجہ بندی مشکل نہیں ہے۔ لیکن مفسر کے مبانی اور نظریات کی تشخیص دشوار ہوتی ہے اور بعض اوقات مفسر خود اس کو بیان نہیں کرتا ہے، بلکہ ساری تفسیر کسی خاص اصول یا تھیوری کی بنیاد پر تحریر کی جاتی ہے۔ یہ مبانی مفسر کے ذہن میں جگہ بنا لیتے ہیں اور غیر مرئی انداز میں تفسیر میں اپنا کام دکھاتے ہیں ان مبانی کا کشف مفسر کی زندگی، اس کے مطالعات اور اس کے آثار اور تالیفات اور اس کے اساتذہ کی شناخت سے امکان پذیر ہوسکتا ہے حتی اگر مفسر بعض موضوعات کو نمایاں کرے اور بعض کو کم اہمیت دے تب بھی ان مبانی کو سمجھا جاسکتا ہے، مثلاً علامہ طباطبائی (ره)کی تفسیر کے مجموعی مطالعے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ عقل کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور عقل ان کے مبانی تفسیر میں سے ایک ہے اور وہ معتقد ہیں کہ قرآن میں کوئی مقام ایسا نہیں کہ جہاں عقل کی راہنمائی کے بغیر کوئی چیز قابل ادراک ہو۔( المیزان، ج ۳، ص ۸۴)
امام خمینی (ره)کے ایسے مبانی اور نظریات ہیں جو مباحث کو پیش کئے جانے اور ان سے نتیجہ نکالنے کے سلسلے میں بنیادی طورپر موثر ہیں ، مثلاً آپ تفسیر میں مفسر کی مقصدیت کو اصول قرار دیتے ہیں ۔ ایسی مقصدیت کہ جو عمل پر منتج ہوتی ہے، کیونکہ خود یہ کتاب حق اور سعادت کی طرف دعوت دیتی ہے اور اس مقام تک پہنچنے کی کیفیت کو عرفانی شکل میں بیان کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اس نظرئیے کی بنا پر اس بات کے معتقد ہیں کہ تفسیر کی کتاب ایک ایسی عرفانی واخلاقی کتاب ہونی چاہیے جو عرفانی واخلاقی پہلوؤں کو بیان کرے اور جس مفسر نے اس پہلو سے غفلت برتی یا صرف نظر کیا یا اس کو اہمیت نہ دی اس نے مقصود قرآن سے غفلت برتی۔( آداب الصلاۃ،ص ۱۸۵)
اب اگر کوئی شخص امام خمینی (ره)کی تفسیر کردہ آیات پر نظر دوڑائے تو اس کو پتہ چل جائے گا کہ آپ نے اپنے اسی نظرئیے کو عملی جامہ پہنایا ہے اور آیات کی تفسیر کرتے ہوئے اس اصول کی سختی سے پابندی کی ہے۔ گویا آپ کا مکمل مقصد عرفانی تفسیر کے اصول کی پاسداری ہے، مثلاً کتاب ’’آداب الصلاۃ‘‘ میں آیت { وَمَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِہِ مُہاجِراً اِلَی اﷲِ وَرَسُولِہ }(نساء ؍۱۰۰) کی تفسیر کے ان دو اسلوبوں کے فرق کا جائزہ لیتے ہوئے صراحت کے ساتھ اس نکتے کو بیان کرتے ہیں کہ:
’’اہل عرفان اس کریمہ مقدسہ { وَمَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِہِ اِلَی اﷲِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُہُ عَلَی اﷲ} سے قرب نافلہ وفریضہ کا نتیجہ نکالتے ہیں حالانکہ دوسرے اس کا مفہوم بدن کے ساتھ مثلاً مکے یا مدینے کی جانب ہجرت کرنا سمجھتے ہیں ‘‘۔(آداب الصلاۃ، ص ۱۸۹)
مفسر کے نظریات کی تاثیر کا ایک اور نمونہ قرآن کی جامعیت کا نظریہ ہے جس کی امام خمینی (ره)نے اپنے بہت سے آثار میں تاکید کی ہے۔ آپ اپنی ایک کتاب میں رقمطراز ہیں :
’’قرآن مجید اور سنت میں وہ تمام احکامات موجود ہیں جن کی انسان کو اپنی سعادت اور کمال کیلئے ضرورت ہے۔ اصول کافی میں اس عنوان کے تحت ایک فصل ہے کہ لوگوں کی تمام احتیاجات کتاب وسنت میں بیان کردی گئی ہیں اور کتاب یعنی قرآن ہر شئے کی وضاحت ہے قرآن ہر چیز اور ہر امر کا روشن کرنے والا ہے۔ روایت کے مطابق امام معصوم ؑ قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ وہ تمام چیزیں جن کی ملت کو ضرورت ہے وہ کتاب وسنت میں ہیں ۔( ولایت فقیہ، ص ۲۱)
اس طرح کے نظرئیے کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے عرفاء کے بر خلاف امام خمینی (ره) کی نظر صرف اخلاقی وعرفانی مسائل تک محدود نہیں ، بلکہ آپ دونوں پہلوؤں پر توجہ دیتے ہیں ۔اگر اجتماعی وسیاسی مسائل کی طرف توجہ رکھتے ہیں تو معنوی مسائل اور حیات کے اہم امور کو اہداف انبیاء ؑمیں سے سمجھتے ہیں یا قرآنی راہنمائی میں وسیع پیمانے پر تفسیر کے دوران آپ کی نگاہ میں وسعت ہوئی ہے اور مقصدیت آپ کے پیش نظر ہوتی ہےآپ حکومت کا انتظام چلانے کے طریقے اور عام قوانین کے سلسلے میں اپنے نظریات بیان کرتے ہیں تاکہ احکام کے نفاذ کا راستہ ہموار ہوسکے۔