مفسر بعض اوقات کسی فرقے اور مکتب کی جانب رجحان رکھتا ہے، مثلاً معتزلہ اور اشاعرہ، شیعہ یا سنی بعض اوقات علمی پہلو رکھتا ہے۔ مثال کے طورپر مفسر کی نظر محکم ومتشابہ کے بارے میں خاص ہوتی ہے یا وہ وحدت الوجود کا حامی یا اس کا مخالف ہوتا ہے۔ یہ اعتقادات مفسر کے رجحانات اور تفسیر میں موثر ہوتے ہیں ۔
مفسرین کے مختلف مکاتب اور ان کا اپنے اپنے نظریات کے اثبات کو خاص اہمیت دینا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آیات کی تفسیر کے سلسلے میں عقائد کا کردار ناقابل انکار ہے، مثلاً جو حسن وقبح کے ذاتی نہ ہونے کے قائل ہیں اور خوبی وبدی اس چیز کو جانتے ہیں جس کو خدا خوب یا بد بناتا ہے وہ متعلقہ آیات خصوصاً شرپسند اور منحرف انسانوں کے بارے میں نازل شدہ آیات میں انسان کے افعال کو خدا کی طرف نسبت دیتے ہیں اور اس کی توجیہہ کی ضرورت بھی نہیں سمجھتے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خداوند متعال ان افعال قبیح کو برے انسانوں کے توسط سے خلق کرے؟ لیکن اس کے مقابلے میں عدلیہ ہیں کہ جو حسن وقبح ذاتی کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ بدی وخوبی ایسی چیزیں ہیں عقل جن کی خوبی اور بدی کو درک کرتی ہے اور وہ برے کاموں کو انسان سے نسبت دیتے ہیں اور جو آیات ان سے متعلق ہوں ان کی بھی اسی طرح تفسیر کرتے ہیں ۔
جہاں تک امام خمینی (ره)کا تعلق ہے تو ولایت اہل بیت (ع) اور شیعہ نظریات جیسے کلامی عقائد پر ایمان کہ جو آپ اور آپ جیسے دوسرے ہر مفسر کے موقف اپنانے میں ایک واضح امر ہے، آپ کے عقائد کا ایک حصہ علمی ہے جس کے اثرات آپ کی روش تفسیر میں دکھائی دیتے ہیں ، مثلاً آپ تفسیر اور تفسیر بالرائے کے بارے میں بحث کرتے ہوئے معارف اور عقائد میں عقل وبرہان کے استعمال کو جائز جانتے ہیں اور جن روایات میں تفسیر بالرائے سے منع کیا گیا ہے ان کو آیات کے اس حصے سے متعلق نہیں جانتے ہیں ۔ یا مثلاً آپ نے اخلاقی اور عرفانی نتائج کو معانی کا حصول قرار دیا ہے۔ معانی پر سے پردہ اٹھانا اور ان کی وضاحت قرار نہیں دیا ہے۔(آداب الصلاۃ، ص ۱۹۹)
اسی طرح امام خمینی (ره)کا اعتقاد ہے کہ کتاب تدوینی یعنی قرآن کتاب تکوینی کی طرح ہے کہ اس کے بطون سات، بلکہ ستر ہیں اور جہان تکوین اور جہان تدوین میں نسبت پائی جاتی ہے۔ یہ عرفاء کا نظریہ ہے کہ ان دونوں جہانوں کے درمیان ربط پایا جاتا ہے اور جہان تکوین کے تمام احکام جہان تدوین پر منطبق ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ نے عرفانی مباحث پیش کرنے کے سلسلے میں اس نظرئیے سے فائدہ اٹھایا ہے اور اسی کی بنیاد پر تفسیر سے نتائج حاصل کئے ہیں ، مثلاً آپ معتقد ہیں کہ قرآن باطنی پردے رکھتا ہے اور آیات کے ظاہر پر ہی اکتفاء نہیں کرنا چاہیے، بلکہ آیات کے باطن پر غور وفکر کرنا چاہیے اور جو لوگ اپنی ساری کوشش ظاہر کی تفسیر میں صرف کر دیتے ہیں اور اس کے باطن سے فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں تو درحقیقت ان کا کام معنوی حیات کو جلانے، اسے نابود کرنے اور نبوت وولایت کے اصول اور بنیاد کے سلسلے میں جہالت برتنے کے مترادف ہے۔(شرح دعائے سحر، ص ۵۹)
امام خمینی (ره)کے اہم عرفانی نظریات میں سے ایک وحدت الوجود کا نظریہ ہے۔ البتہ اس نظرئیے کو تاریخ کے ادوار میں ظاہری نگاہ رکھنے والے افراد کے نظریات کے ساتھ ہم آہنگ رکھنے کی کوشش کی گئی اور اس کو ایسے انداز میں بیان کیا گیا کہ اس کو سمجھنے میں زیادہ دشواری اور غلط فہمی پیش نہ آئے اور نہ ہی اہل ظاہر کی جانب سے تکفیر کا سامنا کرنا پڑے۔
امام خمینی (ره)نے خاص ظرافت کے ساتھ اس نظرئیے کو بیان کیا اور عملی طورپر اس پر عملی جامہ پہنانے اور سالک کی توجہ عالم کی طرف اس طرح مبذول کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ مقام سلوک میں خدا کے علاوہ کسی کو نہ دیکھے۔ آپ نے بعض جگہ اس کیلئے توحید وجودی کے الفاظ استعمال کئے ہیں یعنی ایسی حالت کا پیدا ہونا اور پیدا کرنا کہ سالک خدا کے علاوہ کسی بھی چیز یا شخص کو قابل توجہ نہ جانے، یہ طبیعی ہے کہ اگر وہ خدا کے علاوہ کسی چیز کو نہ دیکھے تو توحید کی حالت اس پر حاکم ہوجاتی ہے اسی روسے امام خمینی (ره) آیت { اﷲُ نورُ السَّمٰواتِ وَالأرْض} کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’یہی وہ وقت ہے کہ جب خدا کے لطف وکرم سے سالک کے قلب پر یہ منکشف ہوتا ہے کہ نور وجود سے عبارت ہے اور عالم وجود میں خدا تعالیٰ کے علاوہ کوئی نور وظہور نہیں ہے اور جو بھی نور ظہور ہے اس کی بازگشت اسی کی طرف ہے۔ پس عالم ملک وملکوت کی نورانیت اور قدس کے محجوبوں کا ظہور اور سب کا جبروت اسی نور کے واسطے سے ہے اور وہ ذات نور مطلق اور ظہور صرف ہے بغیر اس کے کہ اس میں ذرہ برابر ظلمت وکدورت کی ملاوٹ ہو اور نور کے تمام مراتب اسی کے نور سے ہیں ‘‘۔(شرح دعائے سحر، ص ۳۹)
دلچسپ بات یہ ہے کہ امام خمینی (ره)اسی آیت کی تفسیر اور اس عقیدے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’مجھے اپنی جان کی قسم کہ اس آیت میں حقائق کے ادراک کیلئے ایسے اسرار موجود ہیں کہ بیان جن کے ذکر سے عاجز اور زبان گنگ ہے‘‘۔ (مصباح الہدایہ، ص ۶۱)