امام خمینی (ره)کے بعض ادراکات اور تشریحات کا سرچشمہ آپ کی معلومات اور علم تھا۔ اگر آپ نے شاہ آبادی مرحوم جیسے استاد سے علوم حاصل نہ کئے ہوتے اور اس علم میں صاحب الرائے نہ ہوتے تو کیا آپ عرفان نظری کے اصولوں کے مطابق آیات کی تفسیر بیان کرسکتے؟ اور مصباح الہدایۃ، تعلیقہ بر فوائد الرضویہ، سرّ الصلاۃ اور آداب الصلاۃ میں عرفانی تفسیر وتاویل پیش کرسکتے؟ بلا شبہ امام خمینی (ره)نے ان سے اور ان علوم میں اٹھائے جانے والے سوالوں سے مکمل واقفیت کی وجہ سے قرآن کے متن کے سلسلے میں اجتماعی، فقہی اور فلسفی تفاسیر سے مکمل طورپر الگ اور نمایاں کردار ادا کیا ہے اور تفسیر کے رجحان میں واضح فرق پیدا کردیا ہے۔
مثلاً آپ { بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم } کی تفسیر میں اسم کو خداوند تعالیٰ کی رحیمیت اور رحمانیت کی علامت قرار دیتے ہیں اور چونکہ یہ دو اسمائے شریفہ عالم ہستی پر محیط اسماء میں سے ہیں اور سارا عالم تحقق ان دو اسماء شریفہ کے ساتھ ہی وجود میں آیا ہے اور انہی کے ساتھ کمال تک پہنچتا ہے اس لیے آپ نے رحمت رحیمیہ کی وسعت کے بارے میں عرفانی تجزیہ پیش کیا ہے اور اس بات کے معتقد تھے کہ یہ اسم توحید کے راستے کی طرف راہنمائی کرنے والے ہادیوں کی ہدایت کو شامل ہے اور اس دنیا میں اس مقصد کے تحت ہونے والا ہر واقعہ اسی کا جلوہ ہے اور اگر کچھ لوگ ہدایت حاصل نہیں کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ خدا کی رحمت رحیمیت محدود ہے، بلکہ یہ اس لیے ہے کہ وہ اپنے برے اختیار کے سبب، ہدایت سے محروم ہوگئے۔ اس مقام پر امام خمینی (ره)اس عرفانی نظرئیے کی بنا پر سالک کیلئے عملی راہ حل پیش کرتے ہیں اور اس سے یہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں ۔
’’جو سالک چاہتا ہے کہ اس کے اندر اسم کی حقیقت پیدا ہوجائے تو اسے چاہیے کہ الٰہی رحمتوں کو اپنے قلب تک پہنچائے اور رحمت رحمانیہ ورحیمیہ کے ساتھ وجود حاصل کرے اور دل میں اس کے حاصل ہونے کی علامت یہ ہے کہ خدا کے بندوں کو شفقت ومہربانی کی نظر سے دیکھے اور سب کی خیر اور بھلائی کا طالب ہو اور یہ نظر انبیاء کرام (ع) اور ائمہ معصومین (ع) کی ہے‘‘۔(آداب الصلاۃ، ص ۲۳۶)
اسی آگاہی وعلم کی بنیاد پر تاریخی واقعات کا عرفانی تجزیہ کیا جاتا ہے اور اﷲ کے نافرمان بندوں کو بھی شفقت ومہربانی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہاں اس کی ایک مثال کی جانب اشارہ کیا جاتا ہے:
’’حتی کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں کہ جو نور ایمان وسعادت نہیں رکھتے اور ان کو جہاد وغیرہ سے قتل کیا جاتا ہے، مثلاً یہود بنی قریظہ کا قتل ان کی بھلائی اور اصلاح کیلئے تھا اور کہا جاسکتا ہے کہ ان کا قتل نبی ختمی مرتبت ﷺ کی رحمت کاملہ کی وجہ سے تھا، کیونکہ یہ لوگ اس دنیا میں رہنے کی صورت میں روزانہ اپنے لیے طرح طرح کے عذاب تیار کرتے رہتے۔ دنیا میں گزاری ہوئی تمام زندگی کا موازنہ آخرت کے ایک دن کے عذاب اور مشکلات کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہ بات ان لوگوں پر واضح ہے کہ جو آخرت کے عذاب کی میزان اور وہاں کے اسباب ومسبّبات سے آگاہ ہیں ۔ پس جو تلوار بنی قریظہ وغیرہ کی گردنوں پر چلائی گئی وہ غضب وسخط سے زیادہ رحمت کے نزدیک تھی‘‘۔(آداب الصلاۃ، ص ۲۳۶)
مفسر کی معلومات کی بنیاد پر آیات کی تفسیر وتجزئیے کی یہ روش امام خمینی (ره)کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ جو افراد جبر و تفویض، قضا وقدر یا اﷲ تعالیٰ کی صفات واسماء کے بارے میں خاص علمی اور کلامی نظریات رکھتے ہیں وہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے نظریات کو قرآن کے ساتھ تطبیق دیں اور اگر کسی مقام پر علم کلام کا ماہر مفسر کسی نظرئیے کا مخالف ہو اور اسے وہ نظریہ اپنے ادراک کے خلاف نظر آئے تب بھی وہ اس سے متاثر ہوتا ہے اور مباحث کو شبہہ کی نظر سے دیکھتا اور اس کا جائزہ لیتا ہے اور آیات کی اس کے جواب میں تفسیر کرتا ہے۔