راوی: علی ثقفی
ایک دفعہ میں جماران میں تها اور امام کچه عرصہ پہلے جماران تشریف لائے تهے۔ جنگ کے بهی ابتدائی دن تهے۔ امام کی ملاقات کو آنے والوں کے درمیان ایک جوان عورت بهی شامل تهی جس نے کچه عرصہ پہلے شادی کی تهی اور اس کا شوہر شہید ہوگیا تها۔ وہ چند سال کی ایک بیٹی اپنے ہمراہ لئے آئی تهی۔ بچی بہت بے چین ہو کر رو رہی تهی۔ صبح ہی سے رونا شروع کردیا تها اور زیادہ بے تابی کی وجہ سے اس کا چہرہ اور سر خاک آلود ہوگیا تها اوررخساروں پر آنسو کی لڑی بہہ رہی تهی۔ اس کی ماں اداس تهی، دل چاہتا تها کہ کسی طرح اس لڑکی کو امام کی خدمت میں لے جائے تاکہ باپ سے محروم اس لڑکی کے دل کو کچه سکون ملے۔ ماں کہتی تهی کہ میں بالکل غمگین نہیں ہوں کہ میرا شوہر شہید ہوگیا، کیونکہ میں نے خود ہی ان کو محاذ جنگ پہ جانے کا راستہ ہموار کیا تها۔ لیکن کیا کروں یہ بچی مجهے پریشان کرتی ہے اور سوچتی ہوں کہ اس کا واحد حل یہ ہو کہ امام کچه عنایت فرمائیں۔ اس وقت میرے بهائی نے لڑکی کا ہاته پکڑ لیا اور ہم امام کی خدمت میں اسے لے آئے۔ امام گهر کے دالان میں ٹہل رہے تهے۔ ہماری توقع یہ تهی کہ امام جب لڑکی کو دیکهیںگے تو اس کے سر پہ شفقت سے ہاته پهیریں گے اور ہم اس کو ماں کے پاس واپس لائیںگے۔ لیکن امام نے جب اس روتی اور بے چین بچی کو کو دیکها تو حوض کے کنارے پتهروں پہ بیٹه گئے اور اس بچی کو گود میں اٹهایا اور پهر اس کے سر وچہرے پر پیار وشفقت سے ہاته پهیرا اور اس کے آنسو صاف کیے۔ کافی دیر تک بچی سے بات کرتے رہے اور جب بچی کو ٹهیک سے سکون ملا تو اسے چهوڑ دیا اور ہم نے لا کر اس کو ماں کے حوالے کردیا۔