ایران

ایران میں سیاست اور دین کی جدائی کا نظریہ

دین و سیاست کا موضوع مسلمانوں کے درمیان ایک چیلنج بن کر رہ گیا

امام معصوم ؑ کی ولایت یا اس کی نیابت پر مبنی دینی حکومت کے شیعی نظرئیے کے پیش نظر حالات ایک خاص صورتحال کے ساتھ بڑھتے رہے۔ شیعہ علماء حکومتوں  اور حکومتی پالیسیوں  سے الگ تھلگ رہے۔  جس کی وجہ سے معاشرے کجا انتظام چلانے اور دینی احکام کے استنباط کی روش کے طور پر اسلامی فقہ میں  آگے بڑھنے کی رو ح رفتہ رفتہ ختم ہوگئی اور قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای کے بقول :  ’’دینی تعلیمی مراکز زندگی کے حقایق اور دنیا میں  رونما ہونے والے واقعات و حالات سے بے خبر ہوتے گئے اور ان کا تعلق فقط بعض فروعی فقہی مسائل تک محدود رہ گیا جس کے نتیجے میں  جہاد، تشکیل حکومت، اسلامی معاشروں  کے اقتصاد جیسے فقہ کے اصلی مسائل،  الغرض حکومتی فقہ کو بھلا دیا گیا‘‘۔  (فرہنگ و تہاجم فرہنگی، آیت اللہ خامنہ ای، ص۲۵)

علما کی جانب سے پیش کردہ سیاسی نظریات عملی جامہ نہ پہن سکے وہ رائے اور فتویٰ کے مرحلے تک ہی باقی رہے۔  اگر نظریات ، رائے اور نظرئیے کے مرحلے تک پہنچ کر رک جائیں  اور عمل کے مرحلے تک نہ پہنچ پائیں  تو ان کے نقائص اور خوبیاں  نمایاں  نہیں  ہوتی ہیں ۔  صفوی عہد میں  دین و سیاست میں  ناگہاں  ایک خاص رابطہ برقرار ہوا ۔اس زمانے میں  علماء کو خاص احترام ملا اور ا ن کی باتوں  کو اہمیت حاصل ہوئی۔  محقق کرکیؒؒ،شیخ بہائی ،  علامہ مجلسی ؒ اور ایسے ہی بہت سے دیگر علماء وقت کی حکومتوں  کے ساتھ رابطے میں  تھے اور سیاسی و مذہبی عہدوں  پر بھی فائز تھے۔  قاجاریہ عہد میں  افسوسناک صورتحال برقرار رہی ۔ حتی بعض علماء نے اخلاقی کتب بھی وقت کے حکمرانوں  کے کہنے پر تحریر کیں ۔

مرزا فتح علی آخوند زادہ (۱۲۲۷ھ ؍۱۲۹۵ھ ) کا شمار بھی دین وسیاست کی جدائی اور عدلیہ کے امور علماء سے سلب کئے جانے کے قائلین میں  سے ہوتا ہے۔ میرزا ملکم خان ناظم الدولہ (۱۲۴۹ھ ؍۱۳۲۶ھ) کا خیال تھا کہ مملکت کے نظم و نسق ، قوم کی تربیت اور اس کی آزادی کے سب سے بڑے دشمن علماء اور متعصب مذہبی قدامت پسند ہوتے ہیں ۔میرزا عبد الرحیم طالبوف تبریزی (۱۲۵۰ھ ؍۱۳۲۹ھ) نے مذہب اور انبیاء  کے قوانین کی ضرورت  سے تو انکار نہیں  کیا لیکن ان کی ملکی اموراور  زندگی کے مادی پہلووں  سے دور ہی رکھا۔

مذکورہ نظریات اور اس میدان میں  اترنے والے دیگر جدت پسند دانشوروں  نے کہ جو اسب کے سب مسلمان تھے، مسلمانوں  کے سیاسی نظرئیے کو بہت متاثر کیا اور دین و سیاست کا موضوع مسلمانوں  کے درمیان ایک چیلنج بن کر رہ گیا۔

ایران میں  رضا خان کے زمانے سے دین پر ایک طرح کے حملے کا آغاز ہوگیا۔  درین اثنا ترکی میں  کمال اتاترک نے بھی دین کو اپنی یلغار کا شکار بنا رکھا تھا۔ رضا خان نے ’’دین کے خاتمے‘‘  کی پالیسی اپنا لی۔ حضرت امام خمینیؒ  کے بقول: ’’اس نے دفعتہ اس ملک کا لباس بدل دیا، لوگوں  کی بہت سی روایا کو تبدیل کردیا اور دین پر پابندی لگادی‘‘۔ 

یہ یلغار اسی طرح مسلسل جاری رہی لیکن اسلام خصوصاً شیعہ مذہب کی خصوصیت کی وجہ سے دین کو سیاست اور معاشرے سے مکمل طور پر خارج نہ کیا سکا۔ تاریخی اور سیاسی نشیب و فراز میں  دین کا موثر کردار بہر حال باقی رہا یہاں  تک کہ حضرت امام خمینیؒ کی قیادت میں  اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ عالم اسلام میں  شیعی مرکز میں  ایک اسلامی حکومت کا ظہور ہوا۔  یہ حکومت تمام مسلمانوں  کے لئے امید کی کرن اور ان کی بیداری کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔  سیاست سے دین کی جدائی کا منحوس نعرہ اس وقت بھی مختلف صورتوں  میں  رائج ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ علمائے دین آگے بڑھیں  اور زمان و مکان کے تقاضوں  کو پیش نظر رکھ کر علوم میں  ہمہ گیر اجتہاد کریں  اور دنیا والوں  پر ثابت کریں  کہ دین معاشرتی امور کا انتظام چلانے کی مکمل استعداد رکھتا ہے۔

ای میل کریں