حضرت امام خمینی رہ کی طرف سے اسلامی حکومت کے اعلان اور رضا شاہ کی حکومت کے خلاف جہاد کے اعلان کی دھمکی سے شرق و غرب کی طاقتوں میں ہلچل مچ گئی۔انقلاب کی کامیابی کا یہ دور عالمی سیاست کے حوالے سے ایسا دور تھا جس میں دنیا دو قطبوں یعنی مشرقی اور مغربی بلاک میں تقسیم تھی۔امریکہ اور روس دونوں کو یہ یقین تھا کہ ان کی مرضی کے بغیر کوئی انقلاب اور تبدیلی کامیاب نہیں ہوسکتی،لہذا وہ ایران کےاسلامی انقلاب اور امام خمینی رہ کی شخصیت کے بارے میں یہ گمان کئے بیٹھے تھے کہ یہ انقلاب پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں آ گرے گا۔ امریکہ اس زعم میں مبتلا تھا کہ شاہ کے دور میں اور امام خمینی رہ کے بعض قریبی ساتھیوں مثلا" بنی صدر وغیرہ پر اس کی مضبوط گرفت ہے اور یہ انقلاب ظاہری مخالفت کے باوجود امریکی چنگل سے فرار نہیں کر سکتا۔دوسری طرف روس کو یہ غلط فہمی تھی کہ امام خمینی رہ اور اسکے گرد علماء کی ٹیم سرمایہ دارانہ نظام کی شدید مخالفت ہے اور وہ کمیونزم کے نزدیک ہیں۔لہذا آئندہ کا ایران روس کے اتحادیوں میں شامل ہو گا۔یوں بھی رضا شاہ کے خلاف تحریک میں سوشلسٹ بلاک کافی فعال تھا اور اسکے مختلف سیاسی اور عسکری گروپ قومیت اور کمیونست نظریات کے ساتھ معاشرے کے مختلف طبقات میں پھیلے ہوئے تھے۔امام خمینی رہ نے جب عبوری حکومت تشکیل دینے کا اعلان کیا اور آئندہ کے حکومتی نظام کے بارے میں اپنے موقف اور نظریات کا آغاز کیا تو شرق و غرب کے دونوں بلاکوں میں یہ شک یقین میں بدلنے لگا کہ آئندہ کا ایران اور اسکا نظام اس طرح نہیں ہو گا جس طرح وہ سوچ رہے ہیں۔امام خمینی رہ اور ایرانی عوام نے جب آزادی ، استقلال اور جمہوری اسلامی کا نعرہ بلند کیا تو روس اور امریکہ کی مایوسی میں مزید اضافہ ہوا۔ایران کے اسلامی انقلاب کو اپنے سے دور ہوتا دیکھ کر امریکہ اور روس نے پینترا بدلا اور اس نظام کی کلیدی شخصیات اور بااثر طبقے کے خلاف منفی اقدامات کا آغاز کر دیا۔انقلاب کے ابتدائی چند سالوں کی تاریخ کا اگر سرسری سا بھی جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امریکہ اور روس دونوں نے اپنے اہم مہروں اور لابیوں کو اس انقلاب کو ختم کرنے کے لئے سرگرم کر دیا۔امریکہ اور روس کے ان اقدامات کے علاوہ دونوں نے عالمی سیاست میں بھی ایران کا محاصرہ کرنا شروع کردیا۔
امریکہ جسے شاہ کے دور حکومت میں پورے ایران پر تسلط تھا اس کے لئے یہ بات ہرگز قابل تحمل نہ تھی کہ ایران اتنی آسانی سے اسکے ہاتھوں سےنکل جائے۔لہذا اس نے ایران کے اندر اور عالمی سیاست میں اس انقلاب کے خلاف اپنی سازشوں کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ایران کے اسلامی انقلاب کے خلاف امریکہ سازشیں بر ملا تھیں اور اسکا مرکز و محور تہران میں موجود اس کا سفارتخانہ تھا امریکی سازشیں اس سطح پر پہنچ گئیں کہ یونیورسٹی کے انقلابی طلباء نے اس سفارتخانے کو جاسوسی کا اڈہ قرار دیتے ہوئے اس پر قبضہ کر لیا۔سفارتخانے پر قبضے کے بعد تو امریکی دشمنی مزید آشکار ہو گئی اور اس نے ایران پر فوجی حملہ تک کرنے کی کوشش کی،لیکن طبس میں ریت کے معمولی طوفان نے امریکی ہیلی کاپٹروں اور تربیت یافتہ کمانڈوز کو اپنی لاشیں اور ساز و سامان چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔امریکہ نے ایران کے اسلامی انقلاب کو نابود کرنے کے لئے سفارتی،فوجی،ثقافتی،سیاسی اور تمام ممکنہ رائج ہتھکنڈے استعمال کئے۔لیکن ناکامی اسکا مقدر بنی۔ان ناکامیوں کے بعد امریکہ نے مختلف شعبوں میں انقلاب کے مستقبل کو تاریک کرنے اور اسکی ترقی و پیشرفت کو روکنے کے لئے اقتصادی پابندیوں کا سہارا لیا،اسلامی انقلاب سے پہلے پٹرولیم کی صنعت کے علاوہ ایران کی درآمدات اور برآمدات کی صورتحال یہ تھی کہ اسکے بارے میں یہ مشہور تھا کہ ایران میں گھریلو جانوروں کے لئے گھاس بھی باہر سے درآمد کیا جاتا ہے۔رضا شاہ نے ایران کی اقتصادی صورتحال کو اس سطح پر پہنچا دیا تھا کہ زراعت،صنعت اور دیگر شعبوں میں ملکی برآمدات صفر پر تھیں اور معمولی نوعیت کی اشیاء بھی باہر سے درآمد کی جاتی تھیں ایسے میں امریکہ نے ایران سے تجارت اور اسکے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کر کے اپنے زعم میں ایران کو ایسی مصیبت میں مبتلا کر دیا جسکا علاج صرف امریکہ کے پاس تھا۔
امریکی پالیسی سازوں کا یہ خیال تھا کہ ایران پر جب ایک طرف صدام کے ذریعے جنگ مسلط کر دیں گے اور دوسری طرف اقتصادی شعبے میں بھی مختلف پابندیاں عائد کر دی جائیں گی تو ایران مجبور ہو کر واشنگٹن کے سامنے سرتسلیم خم ہو جائے گا۔امریکہ کی اس سازش کے جواب میں امام خمینی رہ نے خود کفالت کا نعرہ بلند کیا آپ نے اپنے ایک خطاب میں ایرانی عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا اس بات کو ذہن سے نکال دو کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے ہم سب کچھ کر سکتے ہیں اور کر کے دکھائیں گے۔امام خمینی رہ کے اس بیان کے ساتھ ہی انقلابی اداروں نے خود کفالت کی طرف قدم بڑھانا شروع کر دیئے اور تمام عالمی پابندیوں کے باوجود نہ صرف صدام کے خلاف آٹھ سالہ جنگ کو جیت کر دکھایا بلکہ دفاعی صنعت سمیت مختلف شعبوں میں ایسی ترقی کی کہ آج مشرق و مغرب کی طاقتیں حیران و پریشان ہیں۔امام خمینی رہ کی تعلیمات اور قائد انقلاب اسلامی کی بصیرت نے ایران کی اسلامی اور انقلابی قوم میں ایسی روح پھونک دی کہ آج اسلامی جمہوریۂ ایران ترقی و پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن ہے اور ایران کے سائنس دانوں اورعلمی ماہرین نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ دنیا کی ترقی یافتہ قومیں اس پر انگشت بہ دندان ہیں۔موجودہ ایران،عالمی سطح پر علمی میدانوں میں پوری طرح سرگرم عمل ہے اور بہت سے ایرانی دانشوروں اور محققوں کو ممتاز ترین مقام حاصل ہے یہ علمی ترقی و برتری زمانہ قدیم کی مانند ایرانیوں کے درمیان ازسرنو علم و دانش کے احیاء کے مترادف ہے اور بہت ممکن ہے جس طرح ایک زمانے میں مغربی دنیا ایرانیوں کی محتاج و مرہون منت تھی مستقبل قریب میں دوبارہ ایرانی علوم مغربی علوم پر سبقت حاصل کر لیں۔لیزر،نانو ٹیکنالوجی اور مائیکرو الکٹرانیک کی مانند نئے علمی میدانوں میں ایران کے مسلم و دیندار جوانوں کی پیش قدمیاں ظاہر کرتی ہیں کہ ایران روز افزوں علمی فروغ کی طرف گامزن ہے۔
آج ایران دنیا کے ان چار ترقی یافتہ ملکوں میں کی صف میں شامل ہو چکا ہے جو ایک ایٹمی عنصر اسفنجی زیرکونیوم (ZIRKONIYOM ) پیدا کرنے کی ٹیکنالوجی کے ساتھ یورینیم کی افزودگی کی ٹیکنالوجی پر مکمل دسترسی حاصل کر چکا ہے۔اسی طرح جسم کے بنیادی خلیوں کی پیدائش پر دسترسی،طرح طرح کے ٹیکے یا ویکسینیشن تیار کرنے میں خود کفالت اور گردے کی پیوند کاری کے عمل میں دنیا کے ترقی یافتہ ترین ملکوں کی صف میں شمولیت بتاتی ہے کہ ایرانی جوان علم اور ٹیکنالوجی کی آخری چوٹیوں کو سرکرنے پر پوری طرح کمربستہ ہیں۔ڈیموں کی تعمیر و توسیع اور دوسرے ملکوں میں فنی اور آبادیاتی خدمات میں بھی آج ایران دنیا کا چوتھا ملک شمار ہوتا ہے جو ایرانی مسلمانوں کی علمی و فنی کی ارتقاء کا ایک زرین باب ہے۔چھوٹے بڑے ہر قسم کے ہیلی کوپٹر اور ہوائی جہازوں کی تیاری اور،کوثر،فجر تین،شہاب تین اور دونور،اسکیڈبی،ذوالفقار تہتر،فاتح 110 اور تھری زیڈ( z ۔3 ) قسم کے میزائل،آواز کی رفتار سے زیادہ تیز تارپیڈو،کندھے پر رکھ کر ساحل سے سمندر میں مارے جانے والے میزائیل ایف ایل،تین سو ناٹ کی رفتار سے حرکت کرنے والی فلائنگ بوٹس اور اسی طرح پائیلٹ کے بغیر اڑنے والے مختلف الاقسام جہازوں کی خود کفالت کی حد تک تیاری ایرانی ماہرین و محققین کی بہترین کارکردگی کو نمایاں کرنے کے لئے کافی ہیں اور علمی دنیا میں اسلامی جمہوریۂ ایران کی ترقی اور پیشرفت کو نمایان کرتے ہیں۔
ہم اختتام قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے اس بیان سے کرتے ہیں جس میں آپ نے گزشتہ تین عشروں کی ایران کے اہم علمی اور سائنسی کامیابیوں کو آزادی اور آزادانہ فکر کا ثمرہ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے اگر طاغوتی (شاہی) حکومت برقرار رہتی اور خواہ کتنا ہی وقت گزر جاتا،یہ کامیابیاں ممکن نہ ہو پاتیں کیونکہ اغیار پر انحصار اور بیگانوں کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کے دباؤ میں رہنے والے آمرانہ نظام حکومت میں سائنسی اور علمی ترقی ممکن نہیں ہوتی۔