’’امین‘‘ کے یہ معنی ہیں کہ اسلام نے جو قوانین مقرر کئے ہیں فقہا ان کا امانت کے ساتھ اجرا کریں، نہ یہ کہ صرف مسائل بیان کریں، کیا امام ؑ صرف مسائل بیان فرماتے تھے اور صرف آپ نے قانون بیان فرمائے؟ کیا انبیاء صرف مسائل بیان کرتے تھے کہ فقہا مسائل بیان کرنے میں ان کے امین ہیں؟ اگرچہ مسائل وقوانین بیان کرنا بھی ایک فقہی فرض ہے، لیکن اسلام قانون کو ’’آلہ ووسیلہ‘‘ کی نظر سے دیکھتا ہے یعنی قانون کو معاشرہ میں عدل وانصاف کے قیام کا وسیلہ سمجھتا ہے، نیز اعتقادی واخلاقی اصلاح اور انسانی تہذیب کا ذریعہ جانتا ہے، قانون مہذب انسان کی پرورش کے قصد سے اجتماعی عادلانہ نظام جاری وبرقرار کرنے کیلئے ہے۔ انبیاء (ع) کا اہم ترین فرض احکام پر عملدر آمد کرانا، نگرانی اور حکومت کرنا تھا۔
میں نے حضرت امام رضا (ع) کی حدیث پڑھی ہے کہ { لو لم یجعل لہم اماماً قیّماً حافظاً مستودعاً لدرست الملّۃ۔۔۔} امام ؑ قضیہ کلیہ کے طورپر فرماتے ہیں لوگوں کیلئے قیم، حافظ اور امین امام ضروری ہے۔ آپ اس حدیث میں فرماتے ہیں کہ فقہا انبیاء(ع) کے امین ہیں، پس اس صغریٰ، کبریٰ سے نتیجہ نکلتا ہے کہ ضروری ہے کہ فقہا ملت کے رئیس وسربراہ ہوں تاکہ اسلام فرسودہ اور اس کے احکام کو کالعدم نہ ہونے دیں، چونکہ اسلامی ممالک میں عادل فقہا کی حکومت و ولایت نہیں رہی، لہذا اسلام فرسودہ اور اس کے احکام کالعدم ہوگئے۔ جیسا امام ؑنے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا ہے اور تجربہ اس کے صحیح ہونے کو ہر ایک پر ثابت کرتا ہے۔
کیا اسلام فرسودہ نہیں ہوگیا ہے؟ آج اسلامی ممالک میں اسلامی احکام کا اجراء نہیں ہوتا ہے، حدود کا اجراء نہیں ہوتا ہے، اسلامی احکام محفوظ نہیں ہیں، اسلامی نظام ختم ہوچکا، کیا اسلام ختم نہیں ہوا، کیا اسلام یہی ہے کہ صرف کتابوں میں لکھ دیا جائے مثلاً کتاب اصول کافی میں لکھ کر ایک طرف رکھ دیا جائے؟ اگر احکام کا اجراء نہ ہو اور حدود کا اجراء نہ ہو، چور کو اس کی سزا نہ ملے، غارتگر، ظالم اور ستمگر اپنے کئے کی سزا نہ پائیں اور ہم صرف قانون کو بوسہ دے کر ایک طرف رکھ دیں، قرآن مجید کو بوسہ دے کر حفاظت سے رکھ دیں اور شب میں سورۂ یاسین کی تلاوت کر لیا کریں تو کیا اس سے اسلام محفوظ ہوجائے گا؟ کیونکہ ہم میں سے بہت سے افراد نے یہ نہیں سوچا کہ ملت اسلامیہ کا انتظام اسلامی حکومت کے ذریعے چلایا جانا چاہیے، لہذا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف اسلامی ممالک میں اسلامی نظام برقرار نہیں ہو سکا اور ان میں ظالمانہ اور تباہ کن قوانین نافذ ہیں، بلکہ اسلامی منصوبے اور قوانین خود علماء کے ذہنوں میں پرانے ہوچکے ہیں، اس طرح کہ جب گفتگو ہوتی ہے توکہتے ہیں: { الفقہاء أُمناء الرسل} کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسائل میں امین ہیں، قرآنی آیات ان سنی کردیتے ہیں اور جو روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ زمانہ غیبت میں علمائے اسلام ’’والی (حاکم)‘‘ ہیں ان کی تاویل کرتے ہیں کہ مراد مسائل بیان کرنا ہے، کیا یہی امانتداری ہے؟ کیا امین کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اسلامی احکام کو کالعدم نہ ہونے دے اور ظالموں کو بغیر سزا کے نہ رہنے دے؟ اور ملک کے اموال میں ناجائز تصرف نہ ہونے دے؟ بالکل واضح ہے کہ سب چیزیں امین کے ذمہ ہیں اور فقہا کا فرض ہے کہ وہ امانتداری سے کام لیں، اس صورت میں وہ امین وعادل ہوں گے۔
ولایت فقیہ، ص ۶۹