امام خمینی(رح) اور کار آمد اور پائیدار حکومت (۳)

امام خمینی(رح) اور کار آمد اور پائیدار حکومت (۳)

کوئی علاج اس سے بڑھ کر نہیں کہ ملت کو سُپرد شدہ کام، اسلامی اُصول اور آئین کے مطابق بجا لائیں۔

میں جو ایک طالب علم ہوں جب کوئی لائحہ اور بل قانون بن جائے، مانتے ہیں، اگرچہ میری نظر کے خلاف ہو۔ کوئی علاج اس سے بڑھ کر نہیں کہ ملت، خود کو سُپرد کئے گئے کام، اسلامی اُصول اور آئین کے مطابق بجا لائیں۔

تیسری بات، اسلام میں قانون ساز اور قانون چلانے والے خود، قانون پر عمل کرنے والے ہیں اور امام (رح) کی تعبیر میں "پیغمبر اعظم (ص) کی حیات میں بھی "قانون" حاکم و حکمراں تھا اور خود نبی اعظم (ص) قانون کے نافذ تھے، امیر المومنین (ع) کے دور میں بھی "قانون" حکمراں تھا اور علی(ع) قانون لگاو کرتے تھے"۔ (صحیفہ امام؛ ج۱۱ ص۵۲۲)

اسی بنا پر امام (رح) جمہوری اسلامی کی حکومت کو بھی عدالتِ الٰہی کے قانون پر مبنی حکومت جانتے اور معتقد ہیں کہ اسلامی حکومت میں "پوری قوم، قانون کے سایے میں مکمل امن و امان کے ساتھ زندگی کرتی ہے اور کسی بھی حاکم کو اس بات کا حق نہیں کہ شرع مطہر کے مقررات و اصول اور قانون کے خلاف کوئی قدم اُٹھائے"۔  (امام خمینی؛ ولایت فقیہ (حکومت اسلامی)؛ ص۶۲)

چنانچہ امام (رح) تمام لوگوں اور ملک کے ذمہ دار و عہدیدار طبقے کو آئین اور اسلامی ضوابط کے پا بند و پاسدار رہنے کی دعوت دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: "ہم سب کو اس بات کا پا بند رہنا چاہیئے کہ قانون کو قبول کریں اگرچہ آپ کی رائے کے خلاف ہو۔ آپ کو ماننا پڑےگا، کیونکہ میزان اکثریت کی رائے ہے اور گارڈین کونسل [شورائے نگہبان قانون اساسی] کی تشخیص کہ قانون اور اسلام کے خلاف نہیں، خود میزان ہے، تاکہ ہم سب اسے قبول کریں۔ ممکن ہے کہ میں بھی، ان میں سے بہت سے کے، میں جو ایک طالب علم ہوں، مخالف ہوں، لیکن جب قانون بن جائے، پھر ہم بھی مانتے ہیں"۔ (صحیفہ امام؛ ج۱۴، ص۳۷۷)

بنیادی طورپر امام (رح) کے اعتقاد میں "کوئی علاج اور راہ حل اس سے بڑھ کر اور اس سے اعلی و بہتر نہیں ہے کہ پورے ملک میں، قوم و ملت اُن تمام کام کو جو اُن کے سُپرد کئے گئے ہیں، اسلامی ضوابط و اُصول اور ملکی آئین کے مطابق بجا لائیں"۔ (صحیفہ امام، ج۲۱، ص۴۲۲)

کیونکہ جیسا کہ امام (رح) تأکید کرتے ہیں: "قانون ہمیشہ آرام و سکون کا باعث اور عوام کی بہتری و بھلائی کے حق میں ہوتا ہے اور صرف چور، خلافکار، مجرم اور ڈکٹیٹر قانون سے بھاگتے ہیں، لیکن اسلامی ملک کے زمامدار جو خود کو عوام کا امین اور خادم جانتے ہیں، اُن کو ہمیشہ قانون اور اسلامی اقدار و اُصول کے پا بند رہیں اور قانون کو معاشرے کے ہر سطح پر غور و فکر سے چلائے اور قانون کا پاس رکھے"۔ (درجستجو راہ از کلام امام، ص۳۴۶)

تاکہ عوام بھی قوانین اور ضوابط و اصول پر ایمان اور عقیدہ رکھیں اور ان کے اجرا میں حکومت سے تعاون اور مدد کریں۔

 

جاری ہے

ای میل کریں