اس کے علاوہ استعماری طاقتوں نے اپنے ایجنٹوں کے ہاتھوں، کہ جو لوگوں پر مسلط ہیں، ظلم وجور سے بھرا اقتصادی نظام پیش کیا جس کی بنا پر لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے: ظالم ومظلوم۔ ایک طرف کروڑوں مسلمان بھوکے اور صحت و ثقافت سے محروم ہیں اور دوسری طرف صاحبان دولت وثروت اور سیاسی افراد کی اقلیت ہے کہ جو عیاش وآوارہ اور بد عنوان ہیں۔ بھوکے اور اپنی ضرورت سے محروم افراد کوشاں ہیں کہ کسی طرح ان ظالم وغارت گر حکام سے نجات مل جائے تاکہ اچھی زندگی بسر کرسکیں، ان کی یہ سعی وکوشش جاری ہے، مگر حکمراں اقلیتیں اور ظالم وجابر حکومتیں مانع ہیں، ہمارا فرض ہے کہ مظلوم ومحروم افراد کو نجات دلائیں، ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوموں کے حامی وپشت پناہ اور ظالموں کے دشمن ہوں، یہ وہی فرض ہے جس کی حضرت امیر المومنین (ع) نے اپنی وصیت میں دونوں فرزندوں سے تاکید کی آپ نے فرمایا: {کُونـٰا لِلظّالِمِ خَصْماً وَلِلْمَظْلُومِ عَونـاً} (نہج البلاغہ، نامہ ۴۷) ظالموں کے دشمن اور مظلوموں کے حامی وپشت پناہ رہنا۔
علمائے اسلام کا فرض ہے کہ وہ ظالموں کی اجارہ داری اور ان کے ناجائز فائدے اٹھانے کا مقابلہ کریں اور ایسا نہ ہونے دیں کہ اکثریت بھوکی ومحروم رہے اور ان کے پہلو میں ظالم وجابر، غارت گر اور حرام خور عیش وعشرت کے ساتھ زندگی بسر کریں، حضرت امیر المومنین ؑ فرماتے ہیں: میں نے حکومت اس وجہ سے قبول کی کہ خداوند عالم نے علمائے اسلام سے عہد لیا اور ان پر لازم قرار دیا کہ جابر طاغوتی طاقتوں کی غارت گری اور مظلوموں اور ستم رسیدہ افراد کی بھوک ومحرومیت کے مقابلہ میں خاموش نہ بیٹھیں:
أَمـّٰا وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَبَرَأَ النَّسَمَۃَ، لَولاٰ حُضُورُ الْحاضِرِ وَقِیامُ الْحُجَّۃِ بِوُجُودِ النّٰاصِرِ وَمٰا أَخَذَ اﷲُ عَلَی الْعُلَمآئِ أَنْ لاٰ یُقـارُّوا عَلیٰ کِظَّۃِ ظالِمٍ وَلاٰ سَغَبِ مَظْلُومٍ لَأَلْقَیْتُ حَبْلَہا عَلیٰ غارِبِہا وَلَسَقَیْتُ آخِرَہـا بِکاسِ أَوَّلِہا وَلَأَلْفَیْتُمْ دُنْیاکُمْ ہٰـذِہِ أَزْہَدَ عِنْدِي مِنْ عَفْطَۃِ عَنْـز۔) نہج البلاغہ، خطبہ ۳(
اس خدا کی قسم کہ جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور نفس کو پیدا کیا اگر بیعت کرنے والے حاضر نہ ہوتے اور مجھ پر ناصر ومددگار کے ذریعہ حجت تمام نہ ہوتی اور خداوند عالم علما سے عہد و پیمان نہ لئے ہوتا کہ وہ ظالم وستم گر افراد کی غارت گری نیز مظلوم وستم دیدہ کی بھوک و محرومیت کے مقابلہ میں خاموش نہ رہیں تو میں حکومت کی باگ ڈور نہ سنبھالتا، تم نے دیکھا کہ تمہاری اس دنیا کی حیثیت میری نظر میں بکری کے اس پانی سے کم کہ ہے جو چھینکتے وقت اس کی ناک سے نکلتا ہے۔
بھلا کس طرح ہم خاموش وبے کار بیٹھ سکتے ہیں جبکہ دیکھ رہے ہیں کہ خیانت کار وحرام خور لوگوں کا گروہ اور اغیار کے پٹھو اغیار کی مدد اور طاقت کے بل بوتے پر کروڑوں مسلمانوں کی محنت ودولت کو لوٹ رہے ہیں اور کم از کم نعمتوں سے بھی فائدہ اٹھانے نہیں دے رہے ہیں اور انہیں نعمتوں سے استفادہ نہیں کرنے دیتے؟ علمائے اسلام اور سب مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس ظالمانہ صورتحال کا خاتمہ کریں اور اس راستے میں جو کہ مسلمانوں کی سعادت کا راستہ ہے، ظالم حکومتوں کو سرنگوں کر کے اسلامی حکومت تشکیل دیں۔
ولایت فقیہ، ص ۳۵