جو لوگ اسلامی ممالک سے مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کی نظر میں بہترین راستہ یہ ہے کہ ان کے درمیان اختلاف پیدا کریں ۔ جو لوگ بڑی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں ، شیعہ وسنی میں اتحاد پیدا نہیں ہونے دیتے۔ آپ دیکھیں کہ ادھر ہفتہ وحدت شروع ہوتا ہے اور ادھر حجاز سے یہ آواز بلند ہوتی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کیلئے جشن منانا شرک ہے۔ رسول اﷲ ﷺ کی ولادت کا جشن ایران سے مختص نہیں ہے۔ ایران اگر حضرت رسول ؐ کے نام پر جشن منائے تو یہ شرک کیوں ہے؟ اس کی وجہ واضح ہے۔ جس ملک میں اساس وحدت نے عملی شکل اختیار کی ہے، وہ ایران ہے۔ یہ وحدت اہل تشیّع اور اہل تسنّن میں ہو یا حکومت اور عوام کے درمیان۔
مسلمان کہ جن کے پاس اتنے عظیم وسائل اور وسیع ملک ہیں، اگر ان کے درمیان اتحاد ہوتا تو کیا آج کی طرح وہ دو بڑی طاقتوں کے زیر تسلّط ہوتے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتوں نے قرآن کی آواز پر کان نہیں دھرا۔ کیا حکومتوں نے نہیں دیکھا کہ ایران کے ساڑھے تین کروڑ عوام جب متحد ہوگئے تو انھوں نے ایک بہت بڑی بادشاہت کو شکست دے دی جبکہ تمام بڑی طاقتیں اس کے ساتھ تھیں ۔ ایران مشرق ومغرب کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ دنیا کے تقریباً ایک ارب مسلمان اگر متحد ہوجائیں تو شرق وغرب کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ کیا مناسبت ہے کہ علاقے کے بعض ملکوں نے اسرائیل کو تو نظر انداز کررکھا ہے۔ لیکن ایران کہ جو اسلام اور قرآن کا دفاع کرتا ہے، پر حملہ آور ہیں ۔ آج تیل کہ جو بڑی طاقتوں کی رگ حیات ہے مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ پھر بڑی طاقتوں کے زیر فرمان کیوں آئیں اور امریکہ اور روس کیلئے منڈی کیوں بن جائیں! اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں سیاسی شعور نہیں ہے۔ الحمدﷲ آج ایران آزاد ہے اور کسی طاقت کو ایران میں کوئی دخل نہیں ۔ ان طاقتوں کا درد وغم بھی تو یہی ہے کہ وہ ایران میں مداخلت کیوں نہیں کرسکتیں ۔ انشاء اﷲ یہ مداخلت وہ کبھی بھی نہیں کر پائیں گی۔
میں احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان سے خواہش کرتا ہوں کہ وہ عوام کو اتحاد کی دعوت دیں اور اگر ان کے درمیان کوئی اختلاف ہو تو آپ اسے حل کریں ۔ مجھے امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ برادران میں زیادہ اتحاد ویگانگت پیدا کرے گا اور یہ اتحاد ہمیشہ باقی رہے گا۔
(صحیفہ امام، ج ۱۵، ص ۴۵۵)