آیت اﷲ خاتم یزدی:
جس وقت پہلی دفعہ عراق سے ایرانیوں کا انخلاء شروع ہوا تو بعثی روزانہ کافی سارے ایرانیوں کو پکڑ کے بند کرتے اور ان کو اذیت دیتے تھے۔ ان کا مال غارت کرتے اور بڑی توہین وحقارت کے ساتھ انہیں باہر کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بعثی حکومت نے اعلان کردیا کہ سارے ایرانی چھ دن کے اندر عراق سے نکل جائیں ۔ سردیوں کا موسم تھا۔ لوگ جانے کے چکروں میں تھے۔ امام ؒ نے بھی عراق چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ بعثی حکومت اپنی گندی سیاست کے لحاظ سے نہیں چاہتی تھی کہ امام خمینی، عراق سے جائیں ۔ اس لیے امام کو اطلاع دی گئی کہ اس سلسلے میں بعض افراد جن میں ایک صدام کا معاون علی رضا ہے وہ بغدادسے امام سے ملاقات اور ان مسائل کے بارے میں بات کرنے کیلئے نجف آیا۔ امام ؒ نے اعلان کردیا کہ ’’میں اس سے ملنا نہیں چاہتا ہوں ۔ ان میں سے کوئی ایک بھی مجھ سے ملنے کا حق نہیں رکھتا۔ میں نے بھی اپنا پارسپورٹ خروجیہ لگوانے کیلئے بھیجا ہے۔ لہذا میں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ عراق سے جا رہا ہوں ‘‘۔ چونکہ علی رضا ایک خطرناک ظالم شخص تھا، لوگ امام ؒ کے اس فیصلے سے پریشان ہونے لگے۔ اس لیے علماء اور عوام دونوں نے شیخ نصر اﷲ خلخالی مرحوم سے درخواست کی کہ علی رضا بہت ظالم ہے اس کو ملنے سے روکا نہیں جاسکتا۔ اس لیے امام سے درخواست کریں کہ ان کو ملنے کی اجازت دے دیں ۔ آقائے خلخالی نے یہ درخواست امام ؒ تک پہنچا دی۔ امام نے جواب یہ دیا کہ ’’میں اس سے ملوں گا۔ لیکن اس کے غرور کو توڑنا چاہتا ہوں ۔ اسے یہ خیال نہیں ہونا چاہیے کہ وہ بغداد سے یہاں آیا ہے تو میں اتنی آسانی سے اس سے مل لوں گا۔ رہنے دیں اس کا غرور خاک میں مل جائے تب میں اسے ملنے کی اجازت دوں گا‘‘۔
جب یہ وفد امام کی خدمت میں پہنچا تو امام نے بالکل صریح انداز میں فرمایا: ’’تم نے تو یہودیوں سے بھی بدتر ہمارے ساتھ سلوک کیا۔ جو کام تم نے کیا وہ اسرائیل بھی نہ کر سکا ہے، چونکہ جب یہودیوں کو عراق سے نکالا گیا تو ان کو چھ مہینے کی مہلت دی گئی اور اس مہلت کے ختم ہونے کے بعد دوبارہ ان کو مہلت دی گئی تا کہ وہ اپنے امور انجام دیں لیں ۔ لیکن تم نے ایرانیوں کو چھ دن سے زیادہ مہلت ہی نہیں دی!‘‘۔