مختلف طبقہ کے عوام سے خطاب (مغرب زدگی سے رہائی)

مختلف طبقہ کے عوام سے خطاب (مغرب زدگی سے رہائی)

عالم مادہ کی طرف متوجہ ہونا ظلمت ہے، مغرب پرستی بھی ظلمت ہے

 وہ لوگ جن کی ساری توجہ یورپ پر ہے، درحقیقت اُن کی بیگانوں  کی طرف توجہ ہے، جن کا قبلہ یورپ ہے، وہ یورپ کی طرف رخ کیے ہوئے ہیں ۔ وہ تاریکیوں  میں  ڈوبے ہوئے ہیں ۔ ان کے اولیاء بھی طاغوت ہے۔ سرزمین مشرق کی اقوام جنہوں نے اندرونی اور بیرونی پروپیگنڈوں ، اندرونی اور بیرونی گماشتوں  کے کہنے پر مغرب ویورپ کی طرف رخ کیا ہے اور انہوں  نے اپنی آرزوؤں  کا قبلہ یورپ بنالیا ہے وہ اپنے آپ کو نہیں  پہچانتیں ، اُنہوں  نے اپنے آپ کو فراموش کردیا ہے۔ ان اقوام نے اپنے آپ کو گم کیا ہواہے۔ ان کے اندر ایک مغربی دماغ سما گیا ہے۔ ان قوموں  کا ولی اور سرپرست طاغوت ہے۔ یہ قومیں  نور سے نکل کر ظلمتوں  میں  داخل ہوچکی ہیں ۔ مشرق والوں  کی ساری مصیبتیں ، من جملہ ان میں  سے ہم بھی، ہماری ساری مصیبتیں  اور مشکلیں  یہی ہیں  کہ ہم نے اپنے آپ کو گم کردیا ہے۔ ہماری جگہ پر کوئی اور قابض ہوچکا ہے۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں  کہ جو کچھ بھی ایران میں  ہے جب تک اس چیز پر کوئی مغربی نام نہ ہو رائج نہیں  ہوتا۔ دوا خانے کا نام بھی مغربی ہونا چاہیے۔ ہمارے کپڑے بنانے والے کارخانے بھی ضروری سمجھتے ہیں  کہ کپڑے کے کناروں  پرباہر کی کوئی تحریر لکھیں ۔ کپڑے کا نام بھی کوئی مغربی نام ہو۔ ہماری ہر چیز مغربی طرز کی ہونی چاہیے۔ کتاب بھی اگر لکھتے ہیں ، یہی کتابیں  لکھنے والے روشن فکر حضرات میں  سے بعض کتاب بھی لکھتے ہیں  تو یا اس کتاب کا نام یا تو کوئی مغربی نام رکھتے ہیں  یا جب مطالب نقل کرتے ہیں  تو بطور دلیل ایک مغربی رائٹر کا نظریہ بیان کرتے ہیں ۔ اس کا نقص یہ ہے کہ یہ لکھنے والے بھی مغرب زدہ ہیں  اور ہم بھی۔ اگر کتابوں  کا وہ نام نہ ہوں ، اگر فاستونی کپڑے کا یہ نام نہ ہو، اگر دوا خانے کا وہی نام نہ ہو تو ان کی طرف توجہ بھی کم ہوتی ہے۔ کتاب دلچسپ اس وقت ہوتی ہے کہ جیسے ہی کھولیں  مغربی اصطلاحات نظر آ جائیں ۔ مکرر انگریزی کے الفاظ دیکھیں ۔ اپنے الفاظ بھول جاتے ہیں ۔ اپنی زبان بھول جاتے ہیں ۔ اپنے مفاخر کو بالکل بھلا دیا گیا ہے بلکہ دفن کردیا گیاہے اور اس کے بدلے دوسروں  کو جگہ دی گئی ہے۔ یہ سب ظلمتیں  ہیں  کہ طاغوت نے ہم کو نور سے نکال کر ان ظلمتوں  میں  دھکیل دیا ہے۔

          ان آخری ادوار کے طاغوت، ہمارے زمانے میں  انہی لوگوں  نے مغربی مزاج کو اپنایا۔ انہوں  نے ہی ہر چیز کو یورپ اور امریکہ سے منسوب کردیا ہے۔ ہر بات مغرب سے لی ہے۔ ہر شے کو مغرب سے فخر سمجھ کر لے لیا اور ہمارے حوالے کردیا۔ ہماری یونیورسٹیاں  بھی اس دور میں  مغربی تھیں ۔ ہماری معیشت بھی مغربی طرز کی، ثقافت بھی مغربی۔ ہم تو اپنی اصلیت ہی بھول گئے اور اپنی جگہ ایک مغربی نمونہ لے آئے ہیں  ۔ جیسے ہی کوئی شخص مریض ہوتا ہے کہا جاتا ہے کہ اسے ضرور انگلینڈ لے جانا چاہیے، یورپ روانہ کردینا چاہیے،حالانکہ یہاں  بھی ڈاکٹر ہیں ۔

ای میل کریں