دعا کا مقام

حقیقت دعا کوئی نئی چیز نہیں اور اس کی اہمیت کسی خاص زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں

ID: 46119 | Date: 2016/12/27

ایک مسئلہ جس پر امام خمینی  (ره)نے بہت زور دیا اور اسے کس مپرسی کی حالت سے باہر نکالا تلاوت قرآن کریم اور اس سے زیادہ ائمہ  (ع)سے منقول دعاؤں  کی طرف توجہ دینے اور ان میں  غور وفکر کرنے کا ہے، واقعی امام خمینی  (ره) نے ’’دعا‘‘ و’’وحی‘‘ اور عقل وعلم کے درمیان پائے جانے والے ربط کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ بیان کیا اور ان دونوں  کو یوں  ایک دوسرے کے ساتھ قرار دیا کہ ان میں  سے ایک کے اثبات سے دوسرے کی نفی نہیں ہوتی ہے۔ آپ نے یہ کام اس وقت انجام دیا جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ ’’دعا‘‘ اور دینی مسائل کے فلسفے کو منطقی، علمی اور عقلانی پشت پناہی حاصل نہیں  ہے۔ آپ  (ره) نے متنبہ کیا کہ ’’عقل‘‘ و ’’وحی‘‘ تعبد اور فہم کمال کے طلبگار انسان کی پرواز کیلئے دولازمی پر ہیں ۔ جس زمانےے میں  تلاوت قرآن اور دعا کو بے کار لوگوں  کا کام اور غور وفکر سے خالی عمل سمجھا جاتا تھا حتی کہ قرآن کے مفسرین کو حوزہ ہائے علمیہ کے صف اول کے علماء میں  شمار نہیں  کیا جاتا تھا، دعا کی رسومات میں  شامل ہونے کو علماء اور یونیورسٹی کے اساتذہ کے شایان شان نہیں  سمجھا جاتا تھا اس وقت امام  (ره) نے ایک مفکّر عالم، دانشور، قوی سیاستدان اورر مجاہد فقیہ کے طورپر انسان کی ترقی وہدایت کے سلسلے میں  دعا کے تعمیری کردار کی جانب توجہ دلائی اور کمال کے خواہاں  انسانوں  کو ان الٰہی خزانوں  میں  غور وفکر کرنے کی طرف بلایا۔ اپنی پہلی عرفانی تحریر میں  ’’دعائے مباہلہ‘‘ کے نام سے معروف دعائے سحر کی شرح لکھی۔ اس کتاب میں  آپ نے ہدایت ونجات کے راستے پر گامزن افراد کو آگاہ کیا کہہ انسانی تکامل کیلئے سودمند ان گرانبہا خزانوں  سے غفلت نہیں  برتنی چاہئے۔ ایک مقام پر آپ نے دعاؤں  کو ’’قرآن صاعد‘‘کے نام سے یاد کیا۔ اگر قرآن کریم اعلیٰ علیین سے پیغمبر اکرم  (ص) کے قلب مبارک پر نازل ہونے والی وحی، الفاظ اور حقائق کا نام ہے تو دعاؤں  کے الفاظ اور جملے درحقیقت ان ہادیوں  کے روحانی سفر کا زاد راہ ہیں  جن کو وہ اسماء الٰہی میں  چلنےے اور عرفان کے چاروں  سفر کرچکنے کے بعد راہ انسانیت کے خواہاں  اور شاہراہ ہدایت پر پیچھے رہ جانے والوں  کو پیش کرتے ہیں ۔


پس حقیقت دعا کوئی نئی چیز نہیں  اور اس کی اہمیت کسی خاص زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں ۔ البتہ امام  (ره) کے زمانے میں  فطری اور عالمانہ زاویۂ نظر اور حرکت کی وجہ سے اسے ایک خاص تازگی نصیب ہوئی۔ فرزندان انقلاب دعائے توسل، زیارت عاشورا ور دعائے کمیل پڑھ کر دین وقرآن کے دشمنوں  سے جنگ کرتے رہے۔ قرآن اور دعا پڑھنا ان کیلئے نہ فقط افیون ثابت نہ ہوا بلکہ اس سے ان کے حوصلے بڑھے اور ان کی حرکت کا موجب بنا۔ انہوں  نے ان آسمانی الفاظ کو پڑھ کر ہدایت اور تکامل کا راستہ پالیا جس پر تیزی سے چل کر سو سال کا راستہ انتہائی قلیل مدت میں  طے کرلیا۔ حضرت امام  (ره) اپنی کتاب ’’شرح دعائے سحر‘‘ میں  دعا کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :


’’دعا‘‘ وہ تعلّق ہے جو خالق ومخلوق کے درمیان پایا جاتا ہے اور وہ رشتہ ہے جو عاشق ومعشوق کے درمیان ہوتا ہے، مستحکم الٰہی قلعے میں  داخل ہونے کا ذریعہ ہے اور ایسی محکم رسی ہے جو خاکی انسان کو عالم افلاک کے ساتھ ملاتی ہے‘‘۔(شرح دعای سحر، ص ۳۲)


ائمہ الٰہی سے توسل کرنا اور اپنے خداوند کو ان بزرگوں  (سے منقول دعاؤں  کے ساتھ) پکارنا امام خمینی  (ره) کا پیغام ہے جو ہر آن سنائی دیتا ہے۔ یہ دعائیں  معرفت کے بھرپور خزانے ہیں ۔ ان معارف وتعلیمات کو سمجھنے کیلئے علم، مطالعہ، فلسفہ اور عرفان ضروری ہے۔ ان خزانوں  کے ادراک کا نتیجہ حرکت، معرفت، عشق، اطاعت اور عبادت ہے۔ فقط اس صورت میں  ہم اپنے خدا کو ولی کامل کی زبان سے پکار سکتے ہیں ۔ وگرنہ اپنی طبیعت اور خواہشات نفسانی میں  اسیر ہم جیسے مہجور جو معمولی سی تکلیف برداشت کرنے پر قادر نہیں  کس جرأت وہمّت کے ساتھ لب کشائی کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں  کہ {فہبني یا الٰہي وسیّدي ومولاي وربي صبرت علیٰ عذابک فکیف أصبر علیٰ فراقک}۔


امام راہ عشق میں  کہتے ہیں :


’’میں  کوردل اب تک اس دعائے شریف کا یہ جملہ اور بعض دیگر فقرے کما حقہ نہیں  پڑھ سکا ہوں ، بلکہ انہیں  علی  (ع) کی زبانی پڑھتا ہوں  اور میں  نہیں  جانتا کہ اس پر صبر کرنا کیسے دوزخ میں  عذاب خدا سے زیادہ سخت ہے، حالانکہ وہ ایسا عذاب ہے جو {تطّلع علی الافئدۃ}‘‘( چہل حدیث، ص ۶۵)


امام خمینی  (ره) ابراہیم خلیل اﷲ  (ع) کا سفرنامہ ذکر فرماتے ہیں :


’’میں  نے اپنا رخ اس کی جانب کرلیا جو آسمانوں  اور زمین کو عدم سے وجود میں  لایا اور یہ معرفت کا پہلا مرحلہ ہے میں  شرک سے باہر نکلا۔ بعد کے مراحل میں  تدریجاً وہ طبیعات کے کلمات سے باہر نکلا۔ اس وقت نفس کی ’’ربوبیت‘‘ طلوع ہوتی ہے اور جان کے چہرہ کا پردہ بن جاتی ہے۔ اس کے آسمان وجود میں  ایک ستارے کی مانند چمکتا ہے۔ معمار توحید اس کے غروب کو دیکھتا ہے پھر ’’قلب‘‘ کی منزل پر قدم رکھتا ہے۔ اس موقع پر قلب کا چاند اس کے افق وجود سے طلوع ہوتا ہے اور وہ بھی ’’قلب‘‘ کی ربوبیت اور اس کے حجاب بن جانے کو دیکھتا ہے۔ زیادہ دیر نہیں  گزرتی کہ اس کے غروب کا بھی نظارہ کرتا ہے۔ وہ اس مقام سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے اور پھر ربوبیت مقید کو روح نور افشاں  اور درخشاں  کے آفتاب کے چہرے اور پردےے میں  دیکھتا ہے۔ وہ یہاں  بھی سکونت اختیار نہیں  کرتا کیونکہ وہ ربوبیت مطلق کا متلاشی ہے مقید کا نہیں ۔( رہ عشق، ص ۱۹، امام  )وہ جانتا ہے کہ یہ مقیدات سب کے سب حجاب ہیں  اگرچہ ان میں  سے بعض نوری ہیں  لیکن ان کے ’’حجاب‘‘ ہونے میں  کوئی شبہ نہیں ۔( فصوص الحکم ، ص ۶۰۰، ابن عربی)


ابتداء میں  ’’سوال‘‘ اور ’’ضرورت‘‘ ظاہری اور سطحی ہوتی ہے۔ فقط زبانی درخواست ہوتی ہے لیکن اگر یہ سوال اپنے وجودی مراتب کی شناخت اور اس سے آگاہی کی بنیاد پر ہوں  تو دعا ’’زبان‘‘ سے ’’دل‘‘ اور ’’حال‘‘ تک جا پہنچتی ہے اور انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ اپنی ضرورت اور درخواست کا احساس کرتا ہے۔ اس وقت یہ سوال اور طلب دوبارہ ’’زبان‘‘ پر جاری ہوتی ہے اور زبان اس طلب کا اظہار کرتی ہے۔ اب زبان باطن کی ترجمان ہے باطن سے باہر کسی چیز کی نہیں  اور ان حالات میں  قبولیت دعا کو یقینی سمجھا گیا ہے۔ بنابریں ، کوچۂ محبوب کا عارف جانتا ہے کہ اسے کیا مانگنا ہے، کس وقت مانگنا ہے، کس طرح مانگنا ہے اور کس وقت خاموش رہنا ہے، بلکہ وہ بخوبی جان لیتا ہے کہ ’’طالب وطلب ومطلوب از اوست‘‘(آداب الصلاۃ، ص ۱۱  )


می شناسم من گروہی ز اولیاء     کہ دہانشان بستہ باشد از دعا


یہاں  امام خمینی  (ره) ہر کسی کے اپنے خالق کے ساتھ انفرادی تعلّق کے باوجود ہمارے لئے ایک ایسی روشن اور تابناک شاہراہ کا نقشہ کھینچتے ہیں  جو حق وحقیقت کا راستہ طے کرنے والوں  کی نجات کی ضامن ہے۔ آپ ان ہادیوں  سے تمسک کئے بغیر اس سفر کو خطرناک جانتے ہیں ، کیونکہ اس صورت میں  اکثر انسان بھٹک جاتا ہے۔آپ  (ره) اس حقیقت کو اس مطلب کے راز میں  کہ تمام دعاؤں  کا آغاز ’’اﷲ ‘‘ یا ’’اللہم ‘‘ سے ہوتا ہے، بیان کرتے ہیں  کہ چونکہ انسان خدا کی خلق کردہ جہان ہستی کی تمام صورتوں  کا جامع ہے اس لئے وہ اسم اعظم کے زیر تربیت ہے۔ اسم اعظم تمام اسماء وصفات پر محیط ہے۔ تمام مخلوقات پر احاطہ کئے ہوئے ہے اور ان پر حکومت کرتا ہے۔ بنابریں ، انسان کامل کا ربّ حقیقی حضرت الٰہیہ ہے اورر ایسے موجود کو ’’درخواست‘‘ اور ’’طلب‘‘ کے موقع پر اسی اسم سے متوسل ہونا چاہئے جو اس کی جامعیت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو اور اسم مبارک ’’اﷲ‘‘ اس الٰہی موجود کی حفاظت اور ہدایت کیلئے سب سے زیادہ مناسب اسم ہے اور اس سلسلے میں  لطف وقہر الٰہی کا مقہور انسان جلال وجمال کے جامع اسم سے تمسک کرتے ہوئے ہدایت طلب کرتا ہے، کیونکہ وہہ جانتا ہے کہ اسم جامع ’’اﷲ‘‘ ایمان والوں  کا ولی ہے اور ان کو تاریکیوں  سے نور کی جانب لے کر جاتا ہے۔


{  اﷲ ولي الذین آمنوا بخرجہم من الظلمات الی النور  }