حقیقی مرجع دینی وہ ہے جو ادراک و آگاہی او ردین شناسی کے ساتھ درد آشنا اور فرض شناس بھی ہو جیسا کہ ہم امام خمینی ؒ کے اندر یہ صفات پاتے ہیں ۔یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ امام خمینیؒ کے حیرت انگیز انقلاب کی کامیابی کے رازوں میں سے ایک ان کی یہی خصوصیت تھی ۔اسی خصوصیات کی بنا پر وہ انقلاب برپا کرنے اور اس کو ایک ایسے ملک میں صحیح سمت پر چلانے میں کامیاب ہوئے جہاں اس سے قبل قوم و ملت اور آزادی و استقلال کے نام پر چلنے والی اکثر تحریکیں اور بیشتر انقلابات نہ صرف یہ کہ ناکام رہے تھے بلکہ برے انجام سے بھی دو چار ہوئے تھے۔
حقیقی مرجع وہ ہے جو توحید کا منادی ہو پیغمبر ؐ کے اہم ترین مشن کو جاری رکھنے والا اور لوگوں کو ’’معاد‘‘سے آگاہ کرنے والا ہو ۔یہ امور عدالت (اس کے وسیع معنوں میں )کے بغیر منصہ شہود پر نہیں آسکتے۔ایسی عدالت جو انسانی ذہنوں کے علاوہ ان کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں بھی جلوہ گر ہو اور اس کے بغیر توحید بے معنی ہو کر رہ جائے۔
در حقیقت مرجعیت لوگوں کی امامت و قیادت کی اسلامی ذمہ داریوں سے عبارت ہے۔ امام معصوم ؑ کی غیبت کے دوران صاحب یقین ‘اسلام شناس ‘درد آشنا‘پرہیزگار ‘زمانہ شناس اور مجاہد علماء و فقہاء کو ان ذمہ داریوں سے عہدہ بر آمد ہو نا چاہئے۔
امام خمینی (ره) فرماتےہیں:
پیغمبر اسلام (ص) جب دنیا سے جانے والے تھے تو آپ ؐ نے زمانہ غیبت تک کیلئے جانشین مقرر فرمائے اور ان جانشینوں نے امت کیلئے قائد مقرر کئے، بہر حال امت کو خود اس کے حال پر نہیں چھوڑا گیا کہ لوگ حیرت زدہ رہیں بلکہ ان کیلئے امام ؑ ورہبر معین کئے جب تک ائمہ ہدیٰ (ع) تھے، وہ تھے اور ان کے بعد فقہا، جو کہ فرض شناس ہیں، اسلام شناس ہیں، زہد وتقویٰ رکھتے ہیں دنیا کی طرف راغب نہیں ہیں، دنیاوی زرق برق کی طرف توجہ نہیں دیتے، امت کیلئے ہمدرد ہیں، امت کو اپنی اولاد کی طرح سمجھتے ہیں انہیں اس امت کی حفاظت کیلئے معین فرمایا۔( صحیفہ امام، ج ۱۱، ص ۲۲)
امام خمینی ؒ نے نہ صرف یہ کہ دینی ‘فلسفی‘ تاریخی اور اجتماعی ذمہ داریوں کے حامل ایک مرجع ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر انہوں نے حقیقی اسلامی مرجعیت کو نشاۃ ثانیہ عطا کرنے کے ساتھ عصر حاضر میں اسلام کو حیات تازہ سے ہمکنار کیا۔
امت مسلمہ جب بھی اپنے دینی مراجع کی پیشانی پر اجتہاد اور جہاد کے نور فروزاں کا مشاہدہ کرتی ہے اوران کو کائنات کی حقیقتوں اور ذات حق کا جلوہ پاتی ہے تو وہ ان کے قول و فعل سے عدالت کے علمبردار اور نجات انسانی کے ضامن اسلام کا درس حاصل کرتے ہیں اور ان کی قیادت میں سستی و کاہلی کو خیر باد کہہ کراسلام کے نظام زندگی کو عملی شکل دینے کے لئے آگے بڑھتے ہیں ‘کیونکہ مرجعیت کے سائے میں ہی لامحدود صلاحیتوں کی حامل روح انسانی کو سکون اور آرام حاصل ہو سکتا ہے۔
امام خمینی ؒ اس دور میں مرجعیت کے اسی گوہر گم گشتہ کے مظہر تھے چنانچہ ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ جب ایرانی مسلمانوں (بلکہ عالم اسلام )نے جب اس کا جلوہ دیکھ لیا تو انہوں نے حیرت انگیز تاریخی کارنامے انجام دئے۔